Friday, March 13, 2020

epidemic vs pandemic: کورونا وائرس کے لیے عالمی وبا کی اصطلاح اب کیوں استعمال کی جا رہی ہے؟

عالمی ادارہ صحت نے کورونا وائرس کو بالآخر عالمی وبا قرار دے دیا ہے حالانکہ اس سے کہیں پہلے ہی دنیا کے زیادہ تر ممالک میں یہ بیماری پھیل چکی تھی۔

اس حوالے سے یہ سوال عام پوچھا جا رہا ہے کہ وباؤں کے مختلف درجوں این ڈیمک (endemic)، ایپی ڈیمک (epidemic)، اور پین ڈیمک (pandemic) میں کیا فرق ہوتا ہے اور یہ کہ اب تک آخرالذکر اصطلاح یعنی عالمی وبا کورونا وائرس کے لیے استعمال کیوں نہیں کی جا رہی تھی۔

این ڈیمک، ایپی ڈیمک اور پین ڈیمک میں فرق
این ڈیمک
این ڈیمک انفیکشن سے مراد ایسی بیماری ہے جو پورے سال ایک علاقے میں پائی جاتی ہے۔ یہ بیماری ہر وقت اور ہر سال موجود رہتی ہے۔ اس میں چکن پوکس یا خسرے کی بیماری شامل ہے جو ہر سال برطانیہ میں پائی جاتی ہے۔ افریقہ میں ملیریا ایک این ڈیمک انفیکشن ہے۔

ایپی ڈیمک
ایپی ڈیمک یعنی وبا سے مراد ایسی بیماری ہے جس کے مریضوں میں تیزی سے اضافہ ہوتا ہے اور پھر اس میں کمی آتی ہے۔ برطانیہ میں ہم ہر سال فلو کی وبا دیکھی جاتی ہے جس میں موسمِ خزاں اور سرما میں مریض بڑھ جاتے ہیں، مریضوں کی ایک چوٹی بن جاتی ہے اور پھر مریضوں میں کمی آتی ہے۔

پین ڈیمک
پین ڈیمک یعنی عالمی وبا ایسا انفیکشن ہوتا ہے جو ایک ہی وقت میں دنیا بھر میں پھیل رہا ہو۔ سنہ 2009 میں سوائن فلو کا پین ڈیمک دیکھا گیا جس کا آغاز میکسیکو سے ہوا اور پھر یہ وبا دنیا بھر میں پھیل گئی۔ اسے فلو کی پین ڈیمک کا نام دیا گیا تھا۔
عالمی وبا کیا ہوتی ہے؟
عالمی وبا کی اصطلاح کسی بھی ایسی متعدی بیماری کے لیے مختص ہے جس میں مختلف ممالک میں ایک کثیر تعداد میں لوگ ایک دوسرے سے متاثر ہو کر بیمار پڑ رہے ہوں۔ آخری مرتبہ سنہ 2009 میں سامنے آنے والے سوائن فلو کو عالمی وبا قرار دیا گیا تھا جس سے تقریباً دو لاکھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔

عالمی وبا عموماً ایسے وائرس کے پھیلنے سے ہوتی ہے جو نیا ہوا، لوگوں کو آرام سے متاثر کر سکتا ہو اور ایک آدمی سے دوسرے آدمی میں مؤثر انداز میں منتقل ہو رہا ہو۔

نیا کورونا وائرس ان تمام شرائط پر پورا اترتا ہے۔ اس کا نا تو کوئی علاج ہے اور نہ ہی ایسی ویکسین جو اسں کی روک تھام کر سکے۔
لندن سکول آف ہائجین اینڈ ٹراپیکل میڈیسن کی ڈاکٹر روزا لِنڈ ایگو نے وبا کی تشریح کرتے ہوئے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ وائرس کیسے پھیلتا ہے اور ایک عام انفیکشن عالمی وبا کی شکل کیسے اختیار کر لیتی ہے۔

ڈاکٹر روزا لِنڈ ایگو کے مطابق ’وائرس کے اس پھیلاؤ کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس بات کو دیکھنا ہوگا کہ لوگ دنیا بھر میں سفر کرتے ہیں۔ اگر یہ وائرس یا انفیکشن ایسی جگہوں پر پہنچ جائے جہاں یہ برقرار رہ سکتے ہوں تو پینڈیمک (عالمی وبا) کی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ وائرس بہت چھوٹا ہوتا ہے اور یہ پروٹین اور جینیاتی مواد سے مل کر بنتا ہے۔

’دنیا میں کئی طرح کے وائرس پائے جاتے ہیں۔ فلو وائرس کی ایک ایسی قسم ہے جس سے ہر سال کئی انسان متاثر ہوتے ہیں ۔ ہر سال 10 سے 20 فیصد برطانوی آبادی کو فلو ہوتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ وائرس کا پھیلاؤ سمجھنے کے لیے ہم فلو کی مثال لے سکتے ہیں۔ ایک انسان سے دوسرے انسان میں کھانسنے یا چھینکنے سے پھیل سکتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ تب بھی پھیل سکتا ہے کہ جب کسی بیمار شخص کا بلغم کسی جگہ موجود ہو۔ ’اس لیے اپنے ہاتھ دھونا بہت ضروری ہے۔‘

’کچھ ایسے وائرس بھی ہیں جو براہِ راست رابطے سے پھیلتے ہیں، جیسا کہ جب لوگ گلے ملیں یا بوسہ لیں۔ اسی طرح ایچ آئی وی جیسے وائرس بھی ہیں جو جنسی عمل سے پھیلتے ہیں۔‘
اس اصطلاح کا استعمال اب کیوں ہو رہا ہے؟
عالمی ادارہ صحت اب تک کورونا وائرس کے لیے ’عالمی وبا‘ کی اصطلاح استعمال کرنے سے گریزاں تھا۔

مگر اب عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ڈاکٹر ٹیڈروس ادھانوم نے کہا ہے کہ عالمی ادارہ اب یہ اصطلاح (عالمی وبا) اس لیے استعمال کر رہا ہے کیونکہ وائرس سے نمٹنے کے لیے ’اقدامات کی خطرناک حد تک کمی‘ پر گہری تشویش پائی جاتی ہے۔

فروری کے اختتام پر ڈاکٹر ٹیڈروس نے کہا تھا کہ اگرچہ کورونا وائرس میں عالمی وبا بننے کی صلاحیت ہے مگر فی الحال ہم ’اس کے عالمی سطح پر پھیلاؤ کو وقوع پذیر ہوتا نہیں دیکھ رہے ہیں۔‘

مگر وقت کے ساتھ مختلف ممالک میں اس کے کیسز میں اضافہ ہوا ہے۔ اب 114 ممالک میں کورونا وائرس کے 118000 مصدقہ کیسز ہیں۔ وائرس کے بارے میں زبان کی تبدیلی اس وائرس کے اثرات میں بدلاؤ نہیں لاتی مگر اب عالمی ادارہ صحت کو امید ہے کہ کورونا وائرس کو عالمی وبا قرار دیے جانے کے بعد ممالک اس سے نمٹنے کے طریقہ کار میں تبدیلی لائیں گے۔

ڈاکٹر ٹیڈروس کا کہنا ہے کہ ’چند ممالک صلاحیت کی کمی کے ساتھ جدوجہد کر رہے ہیں، کچھ ممالک وسائل کی کمی کے باوجود جدوجہد کر رہے ہیں جبکہ کچھ ممالک عزم کے فقدان کے ساتھ جدوجہد کر رہے ہیں۔‘

عالمی ادارہ صحت نے تمام ممالک کو یہ اقدامات اٹھانے کے لیے کہا ہے:

ایمرجنسی کی صورتحال سے نمٹنے کے میکینزم کو مؤثر اور بہتر بنایا جائے
عوام کو وائرس کے خطرات سے آگاہ کیا جائے، اور بتایا جائے کہ لوگ اپنے آپ کو کیسے محفوظ رکھ سکتے ہیں
کووِڈ 19 سے متاثرہ ہر شخص کو ڈھونڈا جائے، اسے الگ تھلگ رکھا جائے، ٹیسٹ کیے جائیں اور اس کے متاثرہ شخص سے متعلقہ تمام افراد کا سراغ لگایا جائے
عالمی وبا کہنے میں لاپرواہی نہیں برتنی چاہیے‘
ڈاکٹر ٹیڈروس کہتے ہیں ’ہم یہ پرزور انداز میں یا واضح طور پر نہیں کہہ سکتے، مگر تمام ممالک مل کر اس عالمی مرض کا رخ بدل سکتے ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’عالمی وبا‘ کی اصطلاح کے استعمال میں لاپرواہی نہیں برتنی چاہیے۔

ایک بریفنگ میں ان کا کہنا تھا کہ اگر اس اصطلاح کا غلط استعمال کیا گیا تو یہ غیر ضروری خوف اور مایوسی پیدا کرنے کا باعث بن سکتا ہے جس سے اموات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس وبا کو ’عالمی‘ قرار دینے سے عالمی ادارہ صحت کی اس سے نمٹنے سے متعلق کوششوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی اور دیگر ممالک کو بھی اپنی کوششوں میں تبدیلی نہیں لانی چاہیے۔‘

انھوں نے کہا کہ ہم نے اس سے قبل کورونا کی عالمی وبا کبھی نہیں دیکھی اور نہ ہی ایسی وبا دیکھی جس پر قابو بھی پایا جا سکے۔

اس حوالے سے عالمی ادارہ صحت کی کوششوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہم نے تمام ممالک کے دروازوں پر دستک دی ہے۔ تاہم انھوں نے اس حوالے سے کی جانے والی ناکافی کوششوں پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔

انھوں نے کہا کہ ’ہم نے شروع دن سے ہی اس حوالے سے اقدامات اٹھائے ہیں۔۔۔ اور متعدد ممالک نے اس وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے میں کامیابی بھی حاصل کی ہے۔‘

’ایسے ممالک جہاں اب اس وائرس کے نتیجے میں متعدد کیسز سامنے آ رہے ہیں، ان کے لیے اب بات یہ نہیں کہ کیا وہ اسے روک سکتے ہیں، بلکہ یہ ہے کہ کیا وہ ایسا کرنا چاہتے ہیں۔‘

No comments:

Post a Comment