Monday, March 16, 2020

وائرس: بچوں کو کورونا وائرس کے متعلق بتانا ہے، ڈرانا نہیں


کورونا وائرس یا کووڈ 19 کی عالمی تباہی کی لپٹ میں ہر کوئی ہے۔ جن لوگوں کو یہ نہیں لگی وہ اس کے خوف میں رہ رہے ہیں اور یہ خوف بالکل حقیقی ہے جس سے کوئی فرار نہیں۔ یہ وبا دنیا کے مختلف ممالک میں تیزی سے ایک انسان سے دوسرے انسان تک پھیل رہی ہے اور چین سے لے کر امریکہ تک متاثرہ افراد کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ فی الوقت اسے روکنے کا اگر کوئی طریقہ ہے تو وہ ہے خود کو روکنا، مطلب اپنے روز مرہ کی عادات میں تبدیلی لانا۔ اس میں ہاتھ دھونے سے لے کر ہاتھ ملانے اور گلے ملنے سے لے کر ان جگہوں پر اکٹھا ہونا شامل ہے جہاں مجمع زیادہ ہے۔ جتنا کم گھر سے نکلیں اتنا ہی بہتر ہے۔ بس یہ سمجھ لیں کہ کم ملنے سے محبت کم نہیں ہو رہی بلکہ اپنا اور دوسرے کا بھلا ہو رہا ہے۔

پر یہاں سب سے بڑا مسئلہ والدین، خصوصی طور پر کام کرنے والے والدین کا ہے کہ وہ کس طرح بچوں کو سمجھائیں کہ یہ وائرس کیا ہے، کتنا خطرناک ہے اور اس سے کیسے بچنا چاہیئے۔ بچے بچے ہوتے ہیں، چیزیں اپنی طرح سے سمجھتے ہیں اور ہر کوئی ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ تو پھر ہم بچوں کو کیسے بتائیں؟

بچوں کے ساتھ کورونا وائرس کے متعلق گفتگو کرنے سے اجتناب نہ کریں
زیادہ تر بچوں نے اس وائرس کے متعلق پہلے ہی سنا ہو گا یا انھوں نے لوگوں کو ماسک پہنے چلتے پھرتے دیکھا ہو گا۔ سو والدین کو کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اس پر بات کرنے سے ہچکچائیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ جس طرح والدین بچے کو اس کی صلاحیت کے مطابق کوئی خبر سمجھا سکتے ہیں شاید دوسرے نہیں سمجھا سکتے۔ وہ آپ کی بات سنتا، سمجھتا اور سوال کرتا ہے۔

بچوں کو یہ بتانا ضروری ہے کہ یہ عالمی وبا کیوں ہے
بچوں سے پوچھیں کہ وہ اس وائرس کے متعلق کیا جانتے ہیں
اپنے بچوں کو کہیں کہ اگر وہ اس وائرس کے متعلق آپ سے کچھ جاننا چاہتے ہیں تو وہ ضرور پوچھیں۔ ضروری نہیں کہ بہت زیادہ ڈرانے والی ہی معلومات دی جائیں لیکن پھر بھی سچ بولتے ہوئے انھیں اس کے متعلق بتایا جا سکتا ہے کہ اسے عالمی وبا کیوں کہا گیا ہے اور کیوں یہ اس وقت دوسری بیماریوں سے زیادہ خطرناک ہے۔

یہ بھی ضروری نہیں کہ آپ اپنے بچوں کے سبھی سوالوں کا جواب دے سکیں لیکن آپ کا انھیں سننا اور ان سے اس موضوع پر بات کرنا ضروری ہے۔ جس سوال کا جواب نہ آئے تو انھیں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ چلو اس کا جواب ڈھونڈتے ہیں۔

مختلف عمروں کے بچوں کو مختلف طریقے کورونا وائرس کے متعلق بتائیں
ہاتھ دھوئیں، ہاتھ دھوئیں اور بس ہاتھ دھوئیں

یونیورسٹی ہسپتال برمنگھم کی کنسلٹنٹ آنکولوگسٹ ڈاکٹر سندس یحیٰ کہتی ہیں کہ بس دھیان یہ رکھیں کہ بات آسان زبان میں ہو۔ 'اس بیماری کو سیدھی اور آسان زبان میں سمجھانا چاہیئے کہ آگہی بھی دی جائے اور خوف بھی پیدا نہ ہو۔'

انھوں نے کہا کہ میں نے آج ہی اپنے آٹھ سالہ بچے سے گفتگو کی جو کہ تقریباً اس طرح تھی۔

’وائرس ایک ایسی چیز ہوتی ہے ایک صحت مند سیل یا خلیے کو اپنے کاپی بنا لیتی ہے تاکہ صحت مند سیل اپنا کام صحیح طریقے سے نہ کر سکے‘
'کووڈ19 ایک نیا بگ یا جراثیم ہے جو لوگوں کو بیمار کر دیتا ہے۔ یہ کورونا وائرسز کے خاندان سے ہے اور ڈاکٹر اور سائنسدان اس کے متعلق زیادہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔

وائرس ایک ایسی چیز ہوتی ہے جو ایک صحت مند سیل یا خلیے کو اپنے کاپی بنا لیتی ہے تاکہ صحت مند سیل اپنا کام صحیح طریقے سے نہ کر سکے۔

ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ زیادہ تر لوگ خصوصاً بچے ٹھیک رہیں گے لیکن شاید کچھ لوگ بیمار ہو جائیں اور آپ سب لوگوں کے صحت مند رہنے میں مدد کر سکتے ہیں۔

یہ ایک شخص سے دوسرے کو کھانسی، چھینک، گندی جگہوں کو چھونے، گندے ہاتھ ملانے اور پھر ان ہاتھوں سے اپنے چہرے، منہ اور ناک کو چھونے سے لگ سکتا ہے۔

جب جراثیم جسم میں مختلف جگہوں سے گزرتا ہے تو لوگوں کو کھانسی ہوتی ہے، ٹھنڈ لگتی ہے، بخار اور سر درد ہوتا ہے اور سینے میں انفیکشن کی وجہ سے سانس پھولتا ہے۔

آپ اس سے سکول، گھر اور کھیل کے دوران محفوظ رہ سکتے ہو اور وہ اس طرح کہ بس ہر ایکٹیویٹی کے پہلے اور بعد زیادہ ہاتھ دھوئیں، خصوصاً کھانا کھانے سے پہلے اور ٹوائلٹ استعمال کرنے کے بعد۔

20 سیکنڈ یا اس سے زیادہ ہاتھ دھوئیں، بلبلے بنانا نہ بھولیں، دو مرتبہ اپنے لیے ہیپی برتھ ڈے گانا گائیں۔ بس اتنی سی بات۔ اور اگر کہیں صابن اور پانی نہ ہو تو ہینڈ جیل یا سینیٹائیزر استعمال کریں۔

اگر آپ کو لگے کہ ناک بہہ رہا ہے، کھانسی یا چھینک آ رہی ہے تو ٹشو پکڑیں اس سے صاف کریں اور بن میں پھینک دیں تاکہ جراثیم مر جائیں۔ پھر ہاتھ دھوئیں تاکہ یہ جراثیم کسی دوسرے کو نہ لگ جائیں۔

کھانسی یا چھینک آئے اور کہیں ٹشو نہ ملے تو کہنی کو ٹیڑھا کر کے اس کے درمیان میں چھینکیں یا کھانسیں۔

بس ہاتھ دھوئیں، ہاتھ دھوئیں اور ہاتھ دھوئیں تاکہ آپ اور دوسرے محفوظ رہیں۔'

کس عمر کے بچے کو کیا اور کیسے بتانا ہے
اگر بچہ 15 سال کا ہے تو وہ اس وائرس کو اور طریقے سے سمجھے گا بہ نسبت پانچ سال کے بچے کے۔ آپ ایک 15 سالہ بچے سے اس وبا سے بچاؤ، اس کی علامات اور اس کے دنیا کو لاحق خطرات کے متعلق بات کر سکتے ہیں۔ لیکن پانچ سالہ بچے کا ذہن اتنا پختہ نہیں ہوتا۔ اس کو اس وائرس کے متعلق معلومات دنیا تو بہت ضروری ہے لیکن اس کی زبان میں ہی۔ مقصد انھیں یہ بتانا ہے کہ اس وبا کی وجہ سے ہمیں زندگی کے کچھ طریقے بدلنے پڑیں گے اور وہ اس کے لیے تیار رہیں۔


بچوں کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ بار بار ہاتھ دھوئیں
کیسے ان سوالوں کا جواب دیں؟
کیا میں بیمار ہو جاؤں گا؟ کیا سکول بند ہو جائے گا؟ کیا ہم سب مر جائیں گے؟ ہم کیا کریں؟

ماہرین کے مطابق سب سوالوں کے جواب دینا ضروری ہے تاکہ بچے کا ننھا ذہن مزید نہ الجھے، لیکن اس کو ڈرائے بغیر۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ بیٹا جب سکول سے آؤ تو دادا دادی کے کمرے میں ان سے سیدھے گلے ملنے نہ جاؤ، یہ ان کے لیے بہتر ہے۔ بچہ آپ سے وجہ پوچھے گا تو اسے وجہ بتائیں۔

آپ نے اسے دانت صاف کرنے یا ہاتھ دھونے کا تو بچپن سے ہی سکھایا ہو گا۔ لیکن متعدد بار ایک خاص وقت تک ہاتھ صاف کرنے کے لیے کوئی نیا طریقہ اپنانے کی ضرورت ہے۔ بچے سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ آپ کے ساتھ مل کر باتھ روم میں ہاتھ دھوتے ہوئے اپنی پسندیدہ نرسری راہیم سنائے اور 'دیکھتے ہیں کہ ہاتھ دھوتے ہوئے کس کو پوری نظم یاد رہتی ہے۔' اس طرح آپ ہنستے ہنستے ہاتھ دھو لیں گے۔ مقصد صرف بیس سیکنڈ تک ہاتھ دھونا ہے اور بچہ آپ سے مقابلے میں یہی کام کر لے تو کیسا ہے۔

No comments:

Post a Comment