Thursday, March 19, 2020

محمد حنیف کا کالم: غریب کورونا، امیر کورونا

اپنے محلے کے جنرل سٹور سے گھر کا سودا خریدتے ہوئے ایک صاحب کو دیکھا جو منرل واٹر کی پیٹیاں ذخیرہ کر رہے تھے لیکن مصر تھے کہ پاکستانی نیسلے نہیں چاہیے، وہ جو دبئی والا آتا ہے وہ چاہیے۔
جب جنرل سٹور والے نے بتایا کہ وہ دستیاب نہیں ہے تو وہ بھناتے ہوئے گاڑی کی چابی گھماتے ہوئے کسی بہتر سٹور کی جانب چل دیے۔
میرے محلے کے سٹور والی گلی میں ہی کراچی کا مشہور عوامی ہوٹل کیفے کلفٹن ہے۔ یہ اتنا عوامی ہے کہ عید کے دن بھی بند نہیں ہوتا۔ کراچی کی انتہائی کم ایسی جگہیں ہیں جہاں مزدور اور بابو ایک ساتھ بیٹھ کر چائے پیتے ہیں۔
یہاں پر صبح مفت ناشتے کا بھی انتظام ہوتا ہے۔ کئی سالوں سے دیکھ رہا ہوں کہ ایک پراٹھے اور چائے کے کپ کے لیے لگی لائن لمبی ہوتی جا رہی ہے۔ لوگ اپنے چھ بچوں کو بھی لاتے ہیں۔ ناشتے کا انتظار کرتے لوگوں کے حلیے سے پتا چلتا ہے کہ وہ محنت کش ہیں، بھکاری نہیں۔
ان میں وردیاں پہنے پرائیویٹ سکیورٹی گارڈز ہوتے ہیں، کبھی رکشہ چلانے والے اور ایک آدھ دفعہ تو میں نے پولیس والے کو بھی ایک ہاتھ میں بندوق اور دوسرے ہاتھ سے چائے پراٹھا پکڑتے دیکھا ہے جو کیفے کلفٹن کے ملازم کسی مخیر اور درد مند شہری کی ایما پر بانٹ رہے ہوتے ہیں۔
سندھ حکومت نے فیصلہ کیا اور اچھا فیصلہ کیا کہ سوائے سودا سلف کی دکانوں کے سب دھندے بند کیے جائیں تو پہلی دفعہ کیفے کلفٹن پر شٹر پڑے دیکھے اور ساتھ ہی یہ احساس ہوا کہ شہر میں ایک امیر کورونا ہے جو دبئی کے منرل واٹر کی تلاش میں ہے اور شہر میں ایک غریب کورونا ہے جو صبح ملنے والے مفت چائے پراٹھے سے محروم ہوگیا ہے۔

کراچی والے اپنے آپ کو بہت ہمت والے سمجھتے ہیں۔ میں کہتا رہا ہوں کہ ہم ڈھیٹ لوگ ہیں۔ الطاف حسین کی سقے شاہی ہو، رینجرز کے پے در پے آپریشن ہوں، ملک کے دوسری آفت زدہ علاقوں سے آنے والے پناہ گزینوں کا سیلاب ہو یا تابڑ توڑ ہونے والے دہشت گرد حملے، ہم دو دن بعد ہی کپڑے جھاڑ کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور نکڑ والے پان کے کھوکھے پر کھڑے ہو کر پان لگواتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ ’اور سناؤ، کیا حال ہے؟‘
ہم اس کو ڈھٹائی کہہ لیں، بہادری کہہ لیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ زیادہ تر شہر میں سکت ہی نہیں ہے کہ وہ کسی خوف اور صدمے کی وجہ سے گھر میں بند ہو کر بیٹھ جائیں۔

شہر کی آدھی سے زیادہ آبادی دیہاڑی دار ہے۔ روز کنواں کھودتے ہیں، روز پانی پیتے ہیں۔ گھر میں چار پانچ دن سے زیادہ کا راشن نہیں ہوتا۔ جب الطاف حسین کے دبدبے میں پورا کراچی آدھے گھنٹے کے اندر اندر بند ہو جاتا تھا تو 48 گھنٹے کے بعد لوگ ’بھائی گیا بھاڑ میں‘ کہتے ہوئے آہستہ آہستہ اپنے دھندوں کے لیے نکل پڑتے تھے۔

لیکن اب وہ ان دھندوں کے لیے جائیں بھی تو کہاں؟ ہر غریب امیر سکول کے باہر ایک بھنی ہوئی مکئی بیچنے والا یا ٹافیوں کی چھابڑی والا۔ سکول بند تو دھندا بند۔

ہر چھوٹے بازار کے کونے پر ایک موچی جو بابوؤں کے جوتے پالش کر کے اور مزدوروں کی چپلیں گانٹھ کر کے حلال رزق بنانے والا، بازار بند تو اس کا روزگار بھی بند۔

ساحلِ سمندر پر تھرماس سے قہوہ بیچنے والے، کرارے پاپڑ والے، اونٹوں اور گھوڑوں پر سواری کرانے والے۔ ساحلِ سمندر بند تو گھر کا چولہا بھی بند۔
سڑک کے کنارے ہتھوڑی، چھینی، ڈرل مشین، پینٹ برش لے کر آجر کا انتظار کرتے مزدور، وہ کھائیں یا کورونا سے بچیں؟

ٹریفک لائٹ پر غبارے، کھلونے بیچتے بچے اور 10 روپے کے عوض آپ کو حاجی صاحب کہنے والی بوڑھی عورت، شہر کے لاک ڈاؤن کے بعد یہ سب لوگ کہاں جائیں گے؟

سندھ حکومت کے مخالف بھی اور وہ لوگ بھی جو بھٹو کے نام کے ساتھ گالی دینا اپنا سیاسی فرض سمجھتے ہیں اس بات کے معترف ہیں کہ سندھ حکومت نے باقی صوبوں کے مقابلے میں بہتر کارکردگی دکھائی ہے۔ سکول، کالج، بازار بند کر کے لوگوں کو اس وبا سے بچنے کے لیے تیار کیا ہے۔

اب کیا ہی اچھا ہو کہ شہر میں پھیلے رفاہی اداروں کے جال جیسے ایدھی، سیلانی، امن فاؤنڈیشن اور اس جیسے بہت سے دوسرے اداروں کے ساتھ میں کر ان محنت کشوں کے لیے راشن اور دوسری ضروریاتِ زندگی کا بندوبست کیا جائے ورنہ صاحبِ حیثیت تو گھروں میں بند ہو کر اپنا منرل واٹر پیتے رہیں گے، لیکن مزدور اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر رزق کی تلاش میں نکلنے پر مجبور ہوگا۔

No comments:

Post a Comment