Saturday, March 14, 2020

کرونا وائرس کی ویکسین تیار کر لی گئی جون تک عوام کے استعمال کے لیے دستیاب ہو گی۔ برطانوی سائنسدان کا دعویٰ

برطانوی سائنسدان نے اعلان کیا ہے کہ کرونا وائرس کی ویکسین ایجاد کر لی گئی ہے جو جون تک دستیاب ہوگی۔تفصیلات کے مطابق کرونا وائرس کی ویکسین تیار کرنے کے لیے مختلف ممالک میں کام ہو رہا ہے تاہم برطانوی سائنسدانوں کا دعویٰ ہے کہ اب اس مہلک وائرس کی ویکسین تیار کی جا چکی ہے۔ سائنسدانوں نے بتایا ہے کہ وہ اس ویکسین کا تجربہ چوہوں پر کرچکے ہیں جب کہ انسانوں پر تجربات جاری ہیں۔
برطانوی ذرائع ابلاغ کے مطابق برطانوی سائنسدانوں کی ٹیم نے بتایا ہے کہ فرانسیسی سائنسدان بھی کرونا کی ویکسین بنانے میں مصروف ہیں۔جون تک یہ ویکسین عوامی استعمال کے لیے دستیاب ہو گی۔تاہم سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ جب تک ویکسین عوامی استعمال کے لیے دستیاب نہیں ہو جاتی۔
وائرس سے بچنے کے لیے سخت ترین اقدامات کیے جائیں۔ یاد رہے اس سے قبل چین کے سائنسدانوں کی جانب سے رواں ماہ اعلان کیا گیا تھا کہ انہوں نے بھی کرونا وائرس کی ویکسین تیار کر لی ہے جس کا تجربہ انسانوں پر اپریل میں کیا جائے گا۔
دنیا بھر میں کرونا وائرس کا علاج ڈھونڈنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ویکسین تیار کرنے کے حوالے سے امریکی فارما کمپنیوں نے بھی امریکی صدر سے ملاقات میں یہی کہا تھا کہ ان کے لئے ویکسین تیار کرنا ممکن نہیں۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ اگر وہ مسلسل کام بھی شروع کر دیں، پھر بھی انہیں ویکسین تیار کرنے میں18 مہینے کا وقت درکار ہو گا۔ لیکن اب برطانوی سائنسدان نے اعلان کیا ہے کہ کرونا وائرس کی ویکسین ایجاد کر لی گئی ہے جو جون تک دستیاب ہوگی جبکہ دوسری جانب چین حکام کی جانب سے بھی ایک ویکسین تیار کی گئی ہے جسے اگلے ماہ اپریل میں پیش کیا جائے گا اور کسی انسان پر اس کا تجربہ کیا جائے گا۔

کورونا وائرس: کووڈ-19 سے متعلق چند بنیادی سوالات اور ان کے جواب

دنیا میں جیسے جیسے کووِڈ-19 نامی کورونا وائرس سے متاثرہ ممالک کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے عام آدمی کے ذہن میں اس بیماری کے بارے میں نت نئے سوالات جنم لے رہے ہیں۔

دنیا بھر میں کورونا وائرس سے اب تک ایک لاکھ 29 ہزار سے زائد افراد متاثر ہو چکے ہیں جبکہ یورپ میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد 16 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔

یہ مرض اب تک پاکستان سمیت دنیا کے 110 سے زائد ممالک میں پھیل چکا ہے اور اسے عالمی ادارۂ صحت نے عالمی وبا قرار دے دیا ہے۔

جیسا کہ یہ وائرس کھانسی کے ذریعہ انسان سے انسان میں منتقل ہوتا ہے لہذا یہ ضروری ہے کہ الکوحل سے بنے ہینڈ سینیٹائزر یا گرم پانی اور صابن سے بار بار ہاتھ دھوئیں اور چہرے کو بار بار چھونے سے اجتناب کریں۔

اس کے علاوہ، آپ کو کسی بھی ایسے شخص سے رابطے سے گریز کرنا چاہیے جسے کھانسی، زکام یا بخار کے شکایت ہو۔ جو بھی شخص یہ سمجھتا ہے کہ وہ کورونا وائرس سے متاثر ہے اسے فوراً اپنے معالج سے رابطہ کرنا چاہیے۔
کورونا وائرس کی نگہداشت کا دورانیہ کتنا ہے؟

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی علامات ظاہر ہونے میں عموماً پانچ دن لگ جاتے ہیںلیکن کچھ لوگوں میں یہ علامات بہت دیر میں بھی ظاہر ہوئیں۔

عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ وائرس کی نگہداشت کا دورانیہ 14 دن تک کا ہے لیکن بعض محققین کا کہنا ہے کہ یہ 24 دن تک بھی ہوسکتا ہے۔

نگہداشت کے دورانیے کے بارے میں علم ہونا اور اسے سمجھنا بہت اہم ہے۔ اس کی مدد سے ڈاکٹرز اور صحت کے حکام کو اس وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے طریقے تلاش کرنے میں مدد ملی ہے۔

کیا کورونا وائرس سے صحت یاب ہونے کا مطلب ہے کہ اس سے بچ گئے؟

یہ کہنا قبل از وقت ہو گا۔ اس وائرس سے انسانوں کا واسطہ ابھی گذشتہ دسمبر سے پڑا ہے لیکن ماضی میں دوسرے وائرسز اور کورونا وائرس کی اقسام کے ساتھ ہونے والے تجربات کی بنیاد پر دیکھا جائے تو آپ کے اندر آپ ایسی اینٹی باڈیز ہونی چاہیئں جو آپ کو اس وائرس سے پچا سکیں۔

سارس اور دوسرے کورونا وائرس میں دوبارے انفیکشن دیکھنے میں نہیں آیا۔ چین سے ملنے والی رپورٹس کے مطابق ہسپتال سے خارج کیے جانے والے افراد میں دوبارہ مثبت ٹیسٹ آئے ہیں لیکن ہم ان ٹیسٹس کے بارے مںی بھی پر یقین نہیں۔

تاہم اہم بات یہ ہے کہ یہ لوگ اب انفیکشن پھیلنے کا سبب نہیں رہے۔

کورونا اور فلو میں کیا فرق ہے؟
کورونا اور فلو کی کئی علامات ایک جیسی ہیں جس کی وجہ سے بغیر ٹیسٹ کے اس کی تشخیص مشکل ہے۔ کورونا وائرس کی بڑی علامات میں بخار اور خشک کھانسی شامل ہیں۔ فلو میں بھی اکثر بخار اور کھانسی ہوتی ہے جبکہ لوگوں کو سانس لینے میں بھی دشواری ہوتی ہے۔

سیلف آئسولیشن کا کیا مطلب ہے؟
سیلف آئسولیشن کا مطلب 14 دن کے لیے گھر پر رہنا ہے اس دوران نہ تو یہ شخص سکول یا کام پر جاتا ہے نہ ہی کسی عوام مقام پر اور اس دوران وہ عوامی ٹرانسپورٹ کے استعمال سے بھی گریز کرتا ہے۔

سیلف آئسولیشن کے دوران ایسا کرنے والا شخص اپنے گھر میں بھی دوسرے افراد سے دور رہتا ہے۔

اگر آپ سیلف آئسولیشن میں ہیں اور اگر آپ کو سودا خریدنے کی ضرورت ہے تو آن لائن سروس استعمال کریں۔

اس دوران آپ کو اپنے پالتو جانوروں سے بھی دور رہنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو ان کے پاس جانے سے پہلے اور بعد ہاتھ ضرور دھوئیں۔
مجھے کیا کرنا چاہیے اگر میرے ساتھ رہنے والا سیلف آئسولیشن اختیار کر لے؟

برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروسز کا کہنا ہے ایسے افراد جو خود ساختہ طور پر اپنے آپ کو الگ تھلگ رکھ رہے ہیں ایسے میں صرف ان لوگوں کو ان ساتھ رہنے کی اجازت دی جانی چاہیے جو پہلے سے ان کے ساتھ رہتے ہیں۔

اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جس شخص کو شک ہے کہ اسے کورونا وائرس ہے اسے گھر میں موجود دوسروں سے کم سے کم رابطہ رکھنا چاہئے۔ اگر ممکن ہو تو ، انھیں ایک ہی کمرے میں نہیں رہنا چاہئے۔

کسی بھی مشترکہ کراکری اور کھانے کے برتنوں کو استعمال کے بعد اچھی طرح صاف کرنا چاہئے، اور باتھ روم اور مشترکہ استعمال کی سطحوں کو بھی اچھی طرح صاف کرنا چاہیے۔

کیا کسی پبلک سوئمنگ پول میں تیرنا محفوظ ہے؟

بیشتر پبلک سوئمنگ پولز کے پانی میں کلورین ہوتا ہے، ایک ایسا کیمیکل جو وائرس کو مار سکتا ہے۔ لہذا جب تک اس میں مناسب طریقے اور مقدار کی کلورین شامل ہے سوئمنگ پول کو استعمال کرنا محفوظ ہونا چاہئے۔

البتہ آپ پھر بھی کسی متاثرہ شخص سے وائرس پکڑ سکتے ہیں اگر وہ سطحوں کو آلودہ کرتے ہیں ، جیسے کپڑے تبدیل کرنے کی جگہ یا عمارت کے دروازوں کے ہینڈلز وغیرہ۔ اور اگر کوئی وائرس سے متاثرہ شخص وہاں موجود ہوں تو وہ قریبی رابطے میں آنے کے صورت میں کھانسی اور چھینک کے ذریعہ بھی وائرس دوسروں میں منتقل کر سکتا ہے۔

کورونا وائرس سے بچنے اور اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے بہت سارے دیگر طریقے موجود ہیں۔

کیا صحت مند معذور افراد میں کورونا وائرس سے مرنے کا خطرہ زیادہ ہے؟

کورونا وائرس سے زیادہ متاثر ہونے کا خطرہ بزرگ افراد یا پہلے سے بیمار افراد میں زیادہ ہوتا ہے۔ ان بیماریوں میں دل کے امراض، ذیابیطس اور پھیھڑوں کی بیماریاں شامل ہیں۔

اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ معذور افراد جو دوسری صورت میں صحت مند ہیں اور جو مثال کے طور پر سانس کی تکلیف میں مبتلا نہیں ہے ان میں کورونا وائرس سے ہلاکت کا خطرہ زیادہ ہے۔
کورونا وائرس سے بچوں کو کتنا خطرہ ہے؟
چین کے اعداد و شمار کے مطابق عام طور پر بچوں کو کورونا وائرس نے نسبتاً بہت کم متاثر کیا ہے۔

اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہ انفیکشن کا خاتمہ کرنے کے قابل ہیں یا ان میں کوئی علامات نہیں ہیں یا صرف بہت ہی ہلکی سی علامات ظاہر ہوئی ہے جیسا کہ زکام۔

تاہم ، دمہ جیسی بنیادی پھیپھڑوں کی بیماری میں مبتلا بچوں کو زیادہ محتاط رہنا پڑتا ہے کیونکہ وائرس ان پر حملہ آور ہوسکتا ہے۔

اگرچہ زیادہ تر بچوں کے لیے یہ کسی سانس کے دیگر انفیکشن کی طرح ہوگا اور خطرے کی کوئی وجہ بات نہیں ہو گی۔

دمہ کے مریضوں کے لیے یہ وائرس کتنا خطرناک ہے؟
سانس کی بیماری کا شکار کرنے والے کورونا وائرس جیسے وائرس سے دمہ کی علامات بڑھ سکتی ہیں۔

دمہ کی بیماری کے حوالے سے برطانوی ادارے ’ایزتھما یو کے‘ ایسے افراد کو جو اس وائرس سے تشویش میں مبتلا ہیں اپنے دمے کی بیماری پر قابو پانے کے لیے چند ہدایات پر عمل کرنے کا مشورہ دیتا ہے۔ ان ہدایات میں ڈاکٹر کا تجویز کردہ انہیلر کا روزانہ استعمال شامل ہے۔

اس سے کورونا وائرس سمیت کسی بھی سانس کے وائرس سے دمہ کے حملے کے خطرے کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔

اگر آپ کے دمے کی علامات کسی بھی وقت بگڑ جائیں تو فوراً اپنے معالج سے رابطہ کریں۔
اگر آپ کے کسی دفتری ساتھی کو کورونا وائرس کی وجہ سے قرنطینہ میں رکھا گیا ہے تو کیا آپ کو بھی قرنطینہ میں رہنا چاہیے؟
اس ضمن میں متعدد اداروں نے کورونا وائرس کے خلاف احتیاطی تدابیر اپناتے ہوئے عملے کو گھر سے کام کرنے کو کہا ہے۔ یہ فیصلہ ان کمپینوں کے چند ملازمین کی متاثرہ ممالک سے واپسی کے بعد ان میں کورونا وائرس کی علامات ظاہر ہونے کے بعد کیا گیا ہے۔

لیکن برطانوی ادارے پبلک ہیلتھ انگلینڈ (پی ایچ ای) کا کہنا ہے کہ عملے کو کام سے گھر بھیجنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ زیادہ تر مشتبہ کیسز کے نتائج منفی نکلتے ہیں۔ برطانوی ادارہ برائے صحت دفتروں کو بند کرنے کی سفارش نہیں کرتا ہے یہاں تک کہ اگر کورونا وائرس کا کوئی تصدیق شدہ کیس بھی ہو۔

برطانوی حکام صرف ان افراد کو خود ساختہ قرنطینہ کا مشورہ دیتے ہیں:

جو کورونا وائرس کے ٹیسٹ کے نتائج کا انتظار کر رہے ہیں
جن کا تصدیق شدہ متاثرہ افراد کے ساتھ قریبی رابطہ رہا ہو
جنھوں نے حال ہی میں متاثرہ ممالک کا دورہ کیا ہو
کیا ایسے افراد جن کو پہلے ہی نمونیا ہو چکا ہے وہ کورونا وائرس سے متاثر ہو سکتے ہیں؟
یہ نیا کورونا وائرس بہت کم تعداد میں افراد کو نمونیا میں مبتلا کر سکتا ہے۔ صرف ان افراد میں اس کا خطرہ موجود ہے جن کے پھیپھڑے پہلے ہی سے کمزور یا خراب ہوں۔ مگر کیونکہ یہ کورونا وائرس کی ایک نئی قسم ہے اور کوئی بھی اس سے محفوظ نہیں ہے اس لیے یہ نیا وائرس کسی بھی طرح کی پھیپھڑوں کی بیماری یا نمونیا کا سبب بن سکتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے خلاف ویکسین دستیاب ہونے میں ابھی 18 ماہ کا وقت لگ سکتا ہے۔

حاملہ خواتین اگر کورونا وائرس سے متاثر ہو جائیں تو ان کو کیا خطرہ ہو سکتا ہے؟
سائنسدانوں کے پاس ایسی کوئی وجہ نہیں ہے کہ وہ یہ کہہ سکیں کہ حاملہ خواتین کو اس وائرس سے متاثر ہونے کا زیادہ خطرہ ہے۔
اپنے آپ کو وائرس سے بچانے کے لیے حفظان صحت کے آسان مشوروں پر عمل کرنا ضروری ہے۔ ان میں اکثر اپنے ہاتھوں کو صابن اور پانی سے اچھی طرح دھونا، اپنے چہرے، آنکھوں یا منہ کو گندے ہاتھوں سے نہ چھونا اور بیمار لوگوں سے دور رہنا شامل ہے۔
اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کورونا وائرس سے متاثر ہو گئے ہیں، یا کسی ایسے شخص کے ساتھ رابطے میں رہے ہیں جسے اس وائرس نے متاثر کیا یا کسی ایسے متاثرہ ملک کا سفر کیا ہو تو آپ کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ آپ اپنے گھر میں رہیں اور ڈاکٹر سے رابطہ کریں۔

کیا کورونا وائرس فلو سے زیادہ نقصان دہ ہے؟

ابھی ان دونوں بیماری کا براہ راست موازنہ کرنا قبل از وقت ہے لیکن ہم یہ جانتے ہیں کہ دونوں وائرس انتہائی خطرناک ہیں۔
اوسطاً کورونا وائرس سے متاثرہ شخص دو سے تین دیگر افراد کو انفیکشن منتقل کرتے ہیں جبکہ فلو سے متاثرہ افراد اسے قریباً ایک دوسرے شخص تک پہنچاتے ہیں۔
تاہم، فلو سے متاثرہ افراد دوسروں کے لیے زیادہ تیزی سے متعدی ہو جاتے ہیں لہذا دونوں وائرس آسانی سے پھیل سکتے ہیں۔
کیا یہ وائرس جنگلی حیات کے ذریعہ پھیل سکتا ہے؟
اس بات کا پتہ لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے مہلک کورونا وائرس جانوروں سے انسانوں میں کیسے منتقل ہوا اور یہ تقریباً یقینی ہے کہ چین میں کورونا وائرس کی ابتدائی وباء کسی جانور کے ذریعہ ہی شروع ہوئی تھی۔ اس نئے انفیکشن کے ابتدائی واقعات کا سراغ جنوبی چین کی سی فوڈ ہول سیل مارکیٹ سے ملتا ہے، جہاں زندہ جنگلی جانور بھی فروخت ہوئے جن میں مرغی، چمگادڑ اور سانپ شامل ہیں۔

البتہ کوئی جانور اس وائرس کو انسانی میں منتقل کرنے کا ذریعہ نہیں ہو سکتا ہے۔

چین سے باہر رہنے والے افراد کے لیے کسی جانور سے وائرس سے متاثر ہونے کے امکانات بہت کم ہیں۔ ہم اس وقت اس وبا کے مختلف مرحلوں پر ہیں جہاں یہ انسان سے انسان میں پھیل رہا ہے اور یہ ہی اصل خطرہ ہے۔
کیا کورونا وائرس کھڑکی اور دروازے کے ہینڈل کو ہاتھ لگانے سے بھی پھیل سکتا ہے ؟
اگر کوئی متاثرہ شخص کھانسی کرتے ہوئے اپنے ہاتھ منھ پر رکھتا ہے اور پھر کسی چیز کو ہاتھ لگاتا ہے تو وہ سطح پر متاثر ہو جاتی ہے۔ دروازے کے ہینڈل اس کی اچھی مثال ہیں جہاں اس وائرس کے ہونے کا امکان ہو سکتے ہیں۔

تاہم اس بات کا ابھی تک علم نہیں ہے کہ یہ نیا کورونا وائرس اس طرح کی سطحوں پر کتنی دیر تک زندہ رہ سکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی عمر دنوں کی بجائے گھنٹوں میں ہے لیکن یہ بہتر ہے کہ آپ باقاعدگی سے ہاتھ دھوئیں تاکہ وائرس سے متاثر ہونے اور پھیلنے کا امکان کم ہو۔

کیا موسم اور درجہ حرارت کورونا وائرس کے پھیلاؤ پر اثر ڈالتا ہے؟
ہمیں ابھی اس وائرس کے متعلق بہت کچھ جاننا باقی ہے۔ یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ موسمی یا درجہ حرارت میں تبدیلی اس کے پھیلاؤ پر کوئی اثرات مرتب کریں گے یا نہیں۔

چند دیگر وائرس جیسا کے فلو موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ اپنے اثرات مرتب کرتا ہے جیسا کہ موسم سرما میں یہ بڑھ جاتا ہے۔

مارس اور اس طرح کے دیگر وائرس کے متعلق چند تحقیق یہ ظاہر کرتی ہیں کہ یہ آب و ہوا کے حالات سے متاثر ہوتے ہیں جو گرم مہینوں میں قدرے زیادہ تیزی سے پھیلتے ہیں۔

کیا آپ متاثرہ شخص کے تیارکردہ کھانے سے اس وائرس سے متاثر ہو سکتے ہیں؟
اگر کوئی کورونا وائرس سے متاثرہ شخص کھانا تیار کردہ ہے اور اس دوران حفظان صحت اور صفائی کا خیال نہیں رکھتا تو ممکنہ طور پر اس سے کوئی اور شخص متاثر ہو سکتا ہے۔ کورونا وائرس کھانسی کے دوران منھ پر ہاتھ رکھنے سے پھیل سکتا ہے اور اگر ایسے میں متاثرہ شخص نے ہاتھ اچھی طرح دھو کر کھانا تیار نہیں کیا تو اس کے امکان بڑھ جاتے ہیں۔ لہذا کھانےکو چھونے اور کھانے سے قبل اچھی طرح ہاتھ دھوئیں تاکہ اس کے جراثیم کو پھیلنے سے روکا جا سکے۔

اگر آپ ایک مرتبہ کورونا وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں تو کیا اس وائرس کے خلاف آپ کی مدافعت بڑھ جاتی ہیں؟
جب لوگ کسی انفیکشن یا بیماری سے صحت یاب ہوجاتے ہیں تو ان کے جسم میں اس بیماری سے دوبارہ لڑنے کی کچھ یادداشت رہ جاتی ہے۔ تاہم یہ مدافعاتی عمل ہمیشہ دیرپا یا مکمل طور پر موثر نہیں ہوتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں کمی بھی آسکتی ہے۔ یہ معلوم نہیں ہے کہ انفیکشن کے بعد یہ مدافعت کب تک چل سکتی ہے۔

کیا چہرے کا ماسک وائرس کے خلاف کارآمد ہے اور اسے کتنی مدت بعد تبدیل کرناچاہیے؟
اس بارے میں بہت کم شواہد موجود ہیں کہ چہرے کے ماسک پہننے سے فرق پڑتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اپنے منھ کے قریب ہاتھ لے جانے سے قبل یہ زیادہ موثر ہے اچھی حفظان صحت کے تحت آپ باقاعدگی سے اپنے ہاتھ دھوئیں۔
کیا کورونا وائرس جنسی طور پر منتقل ہو سکتا ہے؟
یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ آیا یہ بھی وائرس منتقلی کا ایک ذریعہ ہے یا نہیں جس کے بارے میں ہمیں فکر مند ہونا چاہئے۔ فی الحال، اس وائرس کے پھیلنے کا سب سے بڑا ذریعہ کھانسی اور چھینکوں کو سمجھا جاتا ہے۔

کیا کورونا وائرس سے متاثرہ شخص مکمل صحت یاب ہوا ہے؟
جی ہاں. بہت سے ایسے افراد جو کوروناوائرس سے متاثر ہوئے اور ان میں بیماری کے معمولی علامات ظاہر ہوئی ان میں سے زیادہ تر افراد کی مکمل صحت یابی کی توقع کی جاتی ہے۔

تاہم، بزرگ افراد جنھیں پہلے سے ذیابیطس، کینسر یا کمزور مدافعتی نظام جیسی بیماریاں لاحق ہیں ان کے لیے یہ ایک خاص خطرہ بن سکتا ہے۔

چین کے نیشنل ہیلتھ کمیشن کے ایک ماہر کا کہنا ہے کورونا وائرس کے معمولی علامات سے ٹھیک ہونے میں ایک ہفتہ لگ سکتا ہے۔

کیا کورونا وائرس ووہان سے خریدی گئی اور دیگر ممالک میں بذریعہ ڈاک بھیجی گئیں اشیا کے ذریعہ منتقل ہو سکتا ہے؟
اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ اس کا کوئی خطرہ ہے۔ کورونا وائرس سمیت کچھ بیماریاں ان سطحوں سے پھیل سکتی ہیں جہاں ان کے متاثرہ افراد کے کھانسی یا چھینکنے کے بعد چھوا ہو، لیکن یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ وائرس زیادہ دن زندہ نہیں رہتا ہے۔ کچھ بھی جو بذریعہ ڈاک بھیجا گیا ہے اس کے منزل مقصود تک پہنچنے تک اس سے آلودہ ہونے کا امکان نہیں ہے۔

کیا سانس کی اس بیماری سے بچنے کے لیے ویکسینیشن کروانا ممکن ہے؟
اس وقت اس وائرس سے بچاؤ کی کوئی ویکسین موجود نہیں ہے جو لوگوں کو اس قسم کے کورونا وائرس سے بچا سکے لیکن محققین اس کی تیاری میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ ایک نئی بیماری ہے جو انسانوں میں پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی تھی۔ جس کا مطلب ہے کہ ڈاکٹروں کے پاس اس کے بارے میں جاننے کے لیے ابھی بھی بہت کچھ ہے۔

Friday, March 13, 2020

epidemic vs pandemic: کورونا وائرس کے لیے عالمی وبا کی اصطلاح اب کیوں استعمال کی جا رہی ہے؟

عالمی ادارہ صحت نے کورونا وائرس کو بالآخر عالمی وبا قرار دے دیا ہے حالانکہ اس سے کہیں پہلے ہی دنیا کے زیادہ تر ممالک میں یہ بیماری پھیل چکی تھی۔

اس حوالے سے یہ سوال عام پوچھا جا رہا ہے کہ وباؤں کے مختلف درجوں این ڈیمک (endemic)، ایپی ڈیمک (epidemic)، اور پین ڈیمک (pandemic) میں کیا فرق ہوتا ہے اور یہ کہ اب تک آخرالذکر اصطلاح یعنی عالمی وبا کورونا وائرس کے لیے استعمال کیوں نہیں کی جا رہی تھی۔

این ڈیمک، ایپی ڈیمک اور پین ڈیمک میں فرق
این ڈیمک
این ڈیمک انفیکشن سے مراد ایسی بیماری ہے جو پورے سال ایک علاقے میں پائی جاتی ہے۔ یہ بیماری ہر وقت اور ہر سال موجود رہتی ہے۔ اس میں چکن پوکس یا خسرے کی بیماری شامل ہے جو ہر سال برطانیہ میں پائی جاتی ہے۔ افریقہ میں ملیریا ایک این ڈیمک انفیکشن ہے۔

ایپی ڈیمک
ایپی ڈیمک یعنی وبا سے مراد ایسی بیماری ہے جس کے مریضوں میں تیزی سے اضافہ ہوتا ہے اور پھر اس میں کمی آتی ہے۔ برطانیہ میں ہم ہر سال فلو کی وبا دیکھی جاتی ہے جس میں موسمِ خزاں اور سرما میں مریض بڑھ جاتے ہیں، مریضوں کی ایک چوٹی بن جاتی ہے اور پھر مریضوں میں کمی آتی ہے۔

پین ڈیمک
پین ڈیمک یعنی عالمی وبا ایسا انفیکشن ہوتا ہے جو ایک ہی وقت میں دنیا بھر میں پھیل رہا ہو۔ سنہ 2009 میں سوائن فلو کا پین ڈیمک دیکھا گیا جس کا آغاز میکسیکو سے ہوا اور پھر یہ وبا دنیا بھر میں پھیل گئی۔ اسے فلو کی پین ڈیمک کا نام دیا گیا تھا۔
عالمی وبا کیا ہوتی ہے؟
عالمی وبا کی اصطلاح کسی بھی ایسی متعدی بیماری کے لیے مختص ہے جس میں مختلف ممالک میں ایک کثیر تعداد میں لوگ ایک دوسرے سے متاثر ہو کر بیمار پڑ رہے ہوں۔ آخری مرتبہ سنہ 2009 میں سامنے آنے والے سوائن فلو کو عالمی وبا قرار دیا گیا تھا جس سے تقریباً دو لاکھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔

عالمی وبا عموماً ایسے وائرس کے پھیلنے سے ہوتی ہے جو نیا ہوا، لوگوں کو آرام سے متاثر کر سکتا ہو اور ایک آدمی سے دوسرے آدمی میں مؤثر انداز میں منتقل ہو رہا ہو۔

نیا کورونا وائرس ان تمام شرائط پر پورا اترتا ہے۔ اس کا نا تو کوئی علاج ہے اور نہ ہی ایسی ویکسین جو اسں کی روک تھام کر سکے۔
لندن سکول آف ہائجین اینڈ ٹراپیکل میڈیسن کی ڈاکٹر روزا لِنڈ ایگو نے وبا کی تشریح کرتے ہوئے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ وائرس کیسے پھیلتا ہے اور ایک عام انفیکشن عالمی وبا کی شکل کیسے اختیار کر لیتی ہے۔

ڈاکٹر روزا لِنڈ ایگو کے مطابق ’وائرس کے اس پھیلاؤ کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس بات کو دیکھنا ہوگا کہ لوگ دنیا بھر میں سفر کرتے ہیں۔ اگر یہ وائرس یا انفیکشن ایسی جگہوں پر پہنچ جائے جہاں یہ برقرار رہ سکتے ہوں تو پینڈیمک (عالمی وبا) کی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ وائرس بہت چھوٹا ہوتا ہے اور یہ پروٹین اور جینیاتی مواد سے مل کر بنتا ہے۔

’دنیا میں کئی طرح کے وائرس پائے جاتے ہیں۔ فلو وائرس کی ایک ایسی قسم ہے جس سے ہر سال کئی انسان متاثر ہوتے ہیں ۔ ہر سال 10 سے 20 فیصد برطانوی آبادی کو فلو ہوتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ وائرس کا پھیلاؤ سمجھنے کے لیے ہم فلو کی مثال لے سکتے ہیں۔ ایک انسان سے دوسرے انسان میں کھانسنے یا چھینکنے سے پھیل سکتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ تب بھی پھیل سکتا ہے کہ جب کسی بیمار شخص کا بلغم کسی جگہ موجود ہو۔ ’اس لیے اپنے ہاتھ دھونا بہت ضروری ہے۔‘

’کچھ ایسے وائرس بھی ہیں جو براہِ راست رابطے سے پھیلتے ہیں، جیسا کہ جب لوگ گلے ملیں یا بوسہ لیں۔ اسی طرح ایچ آئی وی جیسے وائرس بھی ہیں جو جنسی عمل سے پھیلتے ہیں۔‘
اس اصطلاح کا استعمال اب کیوں ہو رہا ہے؟
عالمی ادارہ صحت اب تک کورونا وائرس کے لیے ’عالمی وبا‘ کی اصطلاح استعمال کرنے سے گریزاں تھا۔

مگر اب عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ڈاکٹر ٹیڈروس ادھانوم نے کہا ہے کہ عالمی ادارہ اب یہ اصطلاح (عالمی وبا) اس لیے استعمال کر رہا ہے کیونکہ وائرس سے نمٹنے کے لیے ’اقدامات کی خطرناک حد تک کمی‘ پر گہری تشویش پائی جاتی ہے۔

فروری کے اختتام پر ڈاکٹر ٹیڈروس نے کہا تھا کہ اگرچہ کورونا وائرس میں عالمی وبا بننے کی صلاحیت ہے مگر فی الحال ہم ’اس کے عالمی سطح پر پھیلاؤ کو وقوع پذیر ہوتا نہیں دیکھ رہے ہیں۔‘

مگر وقت کے ساتھ مختلف ممالک میں اس کے کیسز میں اضافہ ہوا ہے۔ اب 114 ممالک میں کورونا وائرس کے 118000 مصدقہ کیسز ہیں۔ وائرس کے بارے میں زبان کی تبدیلی اس وائرس کے اثرات میں بدلاؤ نہیں لاتی مگر اب عالمی ادارہ صحت کو امید ہے کہ کورونا وائرس کو عالمی وبا قرار دیے جانے کے بعد ممالک اس سے نمٹنے کے طریقہ کار میں تبدیلی لائیں گے۔

ڈاکٹر ٹیڈروس کا کہنا ہے کہ ’چند ممالک صلاحیت کی کمی کے ساتھ جدوجہد کر رہے ہیں، کچھ ممالک وسائل کی کمی کے باوجود جدوجہد کر رہے ہیں جبکہ کچھ ممالک عزم کے فقدان کے ساتھ جدوجہد کر رہے ہیں۔‘

عالمی ادارہ صحت نے تمام ممالک کو یہ اقدامات اٹھانے کے لیے کہا ہے:

ایمرجنسی کی صورتحال سے نمٹنے کے میکینزم کو مؤثر اور بہتر بنایا جائے
عوام کو وائرس کے خطرات سے آگاہ کیا جائے، اور بتایا جائے کہ لوگ اپنے آپ کو کیسے محفوظ رکھ سکتے ہیں
کووِڈ 19 سے متاثرہ ہر شخص کو ڈھونڈا جائے، اسے الگ تھلگ رکھا جائے، ٹیسٹ کیے جائیں اور اس کے متاثرہ شخص سے متعلقہ تمام افراد کا سراغ لگایا جائے
عالمی وبا کہنے میں لاپرواہی نہیں برتنی چاہیے‘
ڈاکٹر ٹیڈروس کہتے ہیں ’ہم یہ پرزور انداز میں یا واضح طور پر نہیں کہہ سکتے، مگر تمام ممالک مل کر اس عالمی مرض کا رخ بدل سکتے ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’عالمی وبا‘ کی اصطلاح کے استعمال میں لاپرواہی نہیں برتنی چاہیے۔

ایک بریفنگ میں ان کا کہنا تھا کہ اگر اس اصطلاح کا غلط استعمال کیا گیا تو یہ غیر ضروری خوف اور مایوسی پیدا کرنے کا باعث بن سکتا ہے جس سے اموات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس وبا کو ’عالمی‘ قرار دینے سے عالمی ادارہ صحت کی اس سے نمٹنے سے متعلق کوششوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی اور دیگر ممالک کو بھی اپنی کوششوں میں تبدیلی نہیں لانی چاہیے۔‘

انھوں نے کہا کہ ہم نے اس سے قبل کورونا کی عالمی وبا کبھی نہیں دیکھی اور نہ ہی ایسی وبا دیکھی جس پر قابو بھی پایا جا سکے۔

اس حوالے سے عالمی ادارہ صحت کی کوششوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہم نے تمام ممالک کے دروازوں پر دستک دی ہے۔ تاہم انھوں نے اس حوالے سے کی جانے والی ناکافی کوششوں پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔

انھوں نے کہا کہ ’ہم نے شروع دن سے ہی اس حوالے سے اقدامات اٹھائے ہیں۔۔۔ اور متعدد ممالک نے اس وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے میں کامیابی بھی حاصل کی ہے۔‘

’ایسے ممالک جہاں اب اس وائرس کے نتیجے میں متعدد کیسز سامنے آ رہے ہیں، ان کے لیے اب بات یہ نہیں کہ کیا وہ اسے روک سکتے ہیں، بلکہ یہ ہے کہ کیا وہ ایسا کرنا چاہتے ہیں۔‘

Wednesday, March 11, 2020

کورونا وائرس: چہرے کو ہاتھ نہ لگانا اتنا مشکل کیوں؟

کسی وبا کے پھوٹنے کی صورت میں ہمیں اپنی ان تمام عادتوں میں سے جو ہمیں دوسرے جانداروں سے ممتاز کرتی ہیں، کے بارے میں متفکر ہونا چاہیے۔

جانداروں کی دوسری تمام انواع میں صرف انسانوں کے بارے میں یہ معلوم ہے کہ وہ غیرارادی طور پر اپنے جسم کو چھوتے ہیں۔

اور انسان کی یہی عادت کورونا وائرس (کووِڈ 19) کی وبا کے پھیلنے کا سبب بن رہی ہے۔

ہم ایسا کیوں کرتے ہیں، اور اس غیرارادی فعل کو کیسے روکا جا سکتا ہے؟

چھونے کی عادت
آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ ہم سب اپنے چہروں کو بہت زیادہ چھوتے ہیں۔

سنہ 2015 میں آسٹریلیا میں میڈیکل کے طلبا پر کی گئیتحقیق میں انھیں بھی اس عادت میں مبتل
ا پایا گیا
طب کے طالب علم کی حیثیت سے تو شاید انھیں اس کے مضر اثرات کے بارے میں زیادہ آگہی ہونی چاہیے تھی۔ مگر دیکھا گیا کہ انھوں نے بھی ایک گھنٹے کے دوران اپنے چہرے کو چھوا، جس میں منھ، ناک اور آنکھوں کو ہاتھ لگانا شامل تھا۔

ماہرینِ صحت اور عالمی ادارۂ صحت سمیت عوامی صحت کے دوسرے اداروں کا کہنا ہے کہ متواتر چھونے کی عادت خطرناک ے۔
کووِڈ 19 سے بچاؤ سے متعلق ہدایات میں ہاتھوں کو غیرمتحرک رکھنے پر اتنا ہی زور دیا گیا ہے جتنا کہ انھیں دھونے پر۔

ہم اپنے چہرے کو کیوں چھوتے ہیں؟
لگتا ہے کہ یہ انسان اور بندر کی نسل کے بس ہی میں نہیں کہ وہ ایسا نہ کرے، یہ ان کے ارتقا کا حصہ ہے۔

زیادہ تر انواع سنورنے اور سنوارنے یا پھر حشرات کو بھگانے کی غرض سے اپنے چہرے کو چھوتی ہیں، مگر انسان اور بندر کے ایسا کرنے کی اور کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔

امریکہ میں یو سی برکلے سے وابستہ ماہرِ نفسیات ڈیکر کلکنر کا کہنا ہے کہ بعض اوقات یہ فعل سکون بخش ہوتا ہے۔ جبکہ بعض اوقات ناز اٹھانے یا اٹھوانے یا پھر مختلف جذبات کے اظہار کے دوران وقفہ پیدا کرنے کے لیے چہرے کو چھوا جاتا ہے، ’بالکل ویسے ہی جیسے سٹیج پر ایک منظر کے خاتمے پر پردہ گرتا اور نئے منظر سے پہلے اٹھتا ہے۔`

عادات پر ریسرچ کرنے والے دوسرے ماہرین کا خیال ہے کہ خود کو چھونے کا عمل ایک طرح سے اپنے جذبات اور توجہ کے دورانیے پر قابو رکھنا ہے۔

جرمن ماہرِ نفسیات اور لِپزگ یونیورسٹی کے پروفیسر مارٹِن گرنوالڈ سمجھتے ہیں کہ یہ ’ہماری انواع کی بنیادی خصلت ہے۔‘
پروفیسر گرنوالڈ نے بی سی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’خود کو چھونے والی حرکات خود ہی سرزد ہوتی ہیں۔ یہ کسی پیغام رسانی کا کام نہیں کرتی اس لیے اکثر ہمیں ان کا احساس بھی نہیں ہو پاتا۔‘

ان کہنا تھا کہ ’یہ ہمارے سوچنے، سمجھنے اور کئی جذباتی افعال میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اور ایسا تمام انسانوں کے ساتھ ہوتا ہے۔‘

خود کو چھونے میں مشکل یہ ہے کہ آنکھوں، ناک اور منھ کو چھونے سے ہر طرح کے جراثیم ہمارے جسم میں داخل ہو جاتے ہیں۔

کووِڈ 19 ہی کی مثال لیجیے، یہ ایک انسان سے دوسرے انسان کو اس وقت لگتا ہے جب کسی متاثرہ شخص کی ناک یا منھ سے چھینٹے اُڑ کر دوسروں پر گرتے ہیں۔
لیکن یہ وبا اس وقت بھی لگ جاتی ہے جب ہم کسی ایسی چیز یا سطح کو چھوتے ہیں جس پر یہ وائرس پہلے سے موجود ہو۔

اگرچہ ماہرین فی الحال وائرس کی اس نئی قسم پر تحقیق میں مصروف ہیں، تاہم کورونا وائرس کی دوسری اقسام کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ یہ بہت سخت جان ہوتی ہیں اور تحقیق کے دوران وہ مختلف مقامات پر نو روز تک زندہ پائی گئی ہیں۔

بقا کی صلاحیت
ان کے باقی رہنے کی یہ صلاحیت ہمارے چہرے کو چھونے کی عادت کے ساتھ مل کر وائرس کو مزید خطرناک بنا دیتی ہے۔

سنہ 2012 میں امریکی اور برازیلی محققین نے عام لوگوں میں سے بغیر کسی امتیاز کے منتخب ایک گروہ کا مشاہدہ کرتے ہوئے پایا کہ ان لوگوں نے ایک گھنٹے کے اندر تین سے زیادہ بار عوامی مقامات پر مختلف جگہوں کو چھوا تھا۔
ان لوگوں نے ایک گھنٹے کے اندر تین سے زیادہ مرتبہ اپنے منھ اور ناک کو بھی ہاتھ لگایا تھا۔ یہ تعداد آسٹریلیا میں طب کے طلبہ کی تعداد سے کہیں کم ہے جنھوں نے ایک گھنٹے کے اندر اپنے چہرے کو 23 بار چھوا تھا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ یہ طلبہ ایک کمرے میں بیٹھے ہوئے لیکچر سن رہے تھا جہاں باہر کے مقابلے میں دھیان بٹنے کے امکانات کم تھے۔

بعض ماہرین کے نزدیک خود کو چھونے کا یہ رجحان چہرے پر ماسک چڑھانے کو لازمی بنا دیتا ہے تاکہ ایسے وائرس سے بچا جا سکے۔

برطانیہ میں لیڈز یونیورسٹی کے پروفیسر سٹیون گریِفِن کا کہنا ہے کہ ’ماسک یا نقاب پہننے سے لوگوں میں چہرے کو چھونے کی عادت کو بھی کم کیا جا سکتا ہے، جو انفیکشن پھیلنے کا بڑا سبب ہے۔‘

ہم کیا کر سکتے ہیں؟
تو چہرے کو چھونے کی اس عادت میں ہم کیسے کمی لا سکتے ہیں؟

کولمبیا یونیورسٹی میں عادات و اطوار کے پروفیسر مائیکل ہالزورتھ کہتے ہیں کہ اس معاملے میں مشورہ دینا آسان مگر اس پر کاربند رہنا مشکل ہے۔

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’لوگوں کو کسی ایسی چیز سے روکنا جو غیرارادی طور پر وقوع پذیر ہوتی ہے سب سے بڑا مسئلہ ہے۔‘
پروفیسر ہالزورتھ کا کہنا ہے کہ چند تراکیب ہیں جن کے ذریعے ہم چہرہ چھونے کی عادت کو کم کر سکتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ ہم یہ عہد کر لیں کہ چہرے کو ہاتھ نہیں لگانا۔

وہ مشورہ دیتے ہیں کہ ’اگر خارش ہو تو متاثرہ مقام کو کھجانے کے لیے متبادل طریقے کے طور پر ہتھیلی کی پشت استعمال کی جا سکتے ہے۔ اگرچہ یہ ایک مثالی حل تو نہیں ہے، مگر اس طرح سے ہم مرض پھیلنے کا خطرہ ضرور کم کر سکتے ہیں۔‘

چھونے کے محرکات کی پہچان
ان کا کہنا ہے کہ ہمیں ان عوامل کی بھی نشاندہی کرنے کی کوشش کرنے چاہیے جو ہمیں خود کو چھونے پر مجبور کرتے ہیں۔

پروفیسر ہالزورتھ کہتے ہیں کہ ’اگر ہمیں خود کو چھونے پر مجبور کر دینے والے عوامل کا پتا چل جائے تو ہم کچھ نہ کچھ کر سکتے ہیں۔

’جن لوگوں کو آنکھیں چھونے کی عادت ہو وہ دھوپ کی عینک پہن سکتے ہیں۔‘

’یا جب آنکھیں ملنے کو دل کرے تو ہاتھوں کو اپنے تلے دبا لیں۔‘


اسلام آباد: پاکستانی فضائیہ کا ایف 16 تباہ، پائلٹ ہلاک

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں پاکستانی فضائیہ کا ایک ایف 16 طیارہ گر کر تباہ ہو گیا ہے اور اس حادثے میں طیارے کے پائلٹ ہلاک ہو گئے ہیں۔
یہ حادثہ بدھ کی صبح شکر پڑیاں کے مقام پر پیش آیا جہاں یومِ پاکستان کی سالانہ پریڈ کی تیاریاں جاری تھیں۔
پاکستان ایئر فورس کے ترجمان کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ حادثے کا شکار ہونے والا ایف 16 طیارہ بھی 23 مارچ کی پریڈ کی ریہرسل کا حصہ تھا اور اس حادثے میں ونگ کمانڈر نعمان اکرم ہلاک ہوئے ہیں۔
106ویں جی ڈی پائلٹ کورس سے پاس آؤٹ ہونے والے ونگ کمانڈر نعمان اکرم کا تعلق سرگودھا میں تعینات نائن سکوارڈن سے تھا۔
فضائیہ کے ترجمان کے مطابق اس حادثے کی تحقیقات کے لیے ایک انکوئری بورڈ تشکیل دینے کا حکم دے دیا گیا ہے۔
نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق دھماکے کے بعد جائے حادثہ سے دھوئیں کے بادل اٹھتے دیکھے گئے جبکہ واقعے کے فوراً بعد فوج کے جوانوں نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا اور وہاں تک عام آدمی کی رسائی بند کر دی گئی۔
پولیس اور ضلعی انتظامیہ کے مطابق فوجی حکام کی جانب سے انھیں کہا گیا کہ اگر ان کی ضرورت پڑی تو انھیں مطلع کر دیا جائے گا۔

حادثے کی ویڈیوز

سوشل میڈیا پر حادثے کی جو ویڈیوز شیئر کی جا رہی ہیں۔
ان ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ طیارہ کرتب دکھاتے ہوئے پہلے ایک دم فضا میں بلند ہوتا ہے اور پھر نیچے آتے ہوئے زمین کے انتہائی قریب آ کر درختوں کے جھنڈ میں غائب ہو جاتا ہے۔
اس کے بعد اس مقام سے آگ کے شعلے اور دھوئیں کے بادل اٹھتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔

Tuesday, March 10, 2020

کورونا وائرس سے بچاؤ اور علاج کے وہ چھ جعلی مشورے جنھیں آپ کو نظر انداز کرنا چاہیے

کورونا وائرس بہت تیزی سے دنیا کے مختلف ممالک میں پھیل رہا ہے اور اب تک اس کا مصدقہ علاج دریافت نہیں ہو سکا ہے۔
تاہم بدقسمتی سے کورونا وائرس کے علاج کے حوالے سے آن لائن طبی مشورے دیے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔ بعض مشورے بیکار مگر بے ضرر سے ہیں مگر بعض انتہائی خطرناک۔
ہم نے بڑے پیمانے پر آن لائن شیئر کیے جانے والے اس نوعیت کے دعوؤں کا جائزہ لیا ہے اور یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ سائنس اس بارے میں کیا کہتی ہے۔

1۔ لہسن

سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بُک پر بہت سی ایسی پوسٹس شیئر کی گئی ہیں جن میں تجویز دی گئی ہے کہ لہسن کھانا انفیکشن کی روک تھام میں مدد گار ہو سکتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ اگرچہ لہسن ’ایک صحت بخش غذا ہے جس میں کچھ اینٹی مائیکروبائل (جراثیم کے خلاف مدافعت) خصوصیات ہو سکتی ہیں‘ تاہم اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ لہسن کھانے سے لوگوں کو کورونا وائرس سے تحفظ مل سکتا ہے۔
اس طرح کا علاج اس وقت تک مضر صحت نہیں ہے جب تک آپ اس پر اعتماد کرتے ہوئے اس حوالے سے موجود (کورونا) مصدقہ طبی مشوروں کو نظر انداز نہ کریں۔ مگر اس طرح کے ٹوٹکوں میں مضر صحت ہونے کی صلاحیت بھی موجود ہے۔
ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ نامی اخبار نے ایک خاتون کی کہانی شائع کی ہے جنھیں 1.5 کلو گرام کچا لہسن کھانے کے بعد ہسپتال لے جایا گیا۔ اتنی مقدار میں لہسن کھانے سے ان کے گلے میں شدید جلن ہو گئی تھی۔

ہم سب جانتے ہیں کہ پھل اور سبزیاں کھانا اور مناسب مقدار میں پانی پینا صحت کے لیے بہت مفید ہے۔ تاہم اس طرح کے کوئی شواہد موجود نہیں ہیں کہ کسی مخصوص نوعیت کی غذا کھانا کسی مخصوص وائرس کے خلاف قوت مدافعت کو بڑھا دے گی۔

2- ’معجزاتی معدنیات‘
معروف یو ٹیوبر جارڈن سیتھر یہ دعویٰ کرتے پائے گئے ہیں کہ ’معجزاتی معدنیات‘ کورونا وائرس کا ’مکمل خاتمہ‘ کر دیتی ہیں۔ ان معدنیات کو ایم ایم ایس کا نام دیا گیا ہے۔

جارڈن سیتھر کے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ہزاروں فالورز ہیں۔

ان معدنیات میں کلورین ڈائی آکسائیڈ پائی جاتی ہے جو کہ ایک بلیچنگ ایجنٹ ہے۔ سیتھر اور ان کے دیگر ساتھیوں نے اس معدنیات کی تشہیر کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے قبل ہی شروع کر دی تھی۔

رواں برس جنوری میں انھوں نے یہ ٹویٹ کی کہ ’کلورین ڈائی آکسائیڈ نہ صرف کینسر کے جراثیم کو موثر انداز میں ختم کرتی ہے بلکہ یہ کورونا وائرس کا خاتمہ بھی کرتی ہے۔‘

گذشتہ برس امریکہ کی ’فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن‘ نے ان معدنیات کو پینے سے صحت کو درپیش خطرات کے حوالے سے متنبہ کیا تھا۔ دیگر ممالک میں بھی صحت کے شعبے سے متعلقہ حکام نے اس بارے میں الرٹس جاری کیے تھے۔

فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کا کہنا ہے کہ ’ہمیں کسی ایسی تحقیق کے بارے میں آگاہی نہیں ہے جو یہ ظاہر کرتی ہو کہ اس طرح کی مصنوعات کسی بیماری کے علاج میں کارگر ثابت ہوتی ہیں۔‘

امریکی ادارے کا مزید کہنا تھا کہ ان معدنیات کو پینے سے متلی، اسہال، ہیضہ اور جسم میں پانی کی شدید کمی جیسی علامات ظاہر ہو سکتی ہیں۔

3- گھروں میں بنائے گئے جراثیم کُش محلول
بہت سی ایسی رپورٹس بھی موصول ہوئی ہیں کہ مختلف ممالک میں ہاتھوں کو جراثیم سے پاک کرنے والے محلول (ہینڈ سینیٹائزر) کی کمی ہو گئی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے بچاؤ کا ایک بڑا ذریعہ ہاتھوں کو بار بار دھونا ہے۔
جب اٹلی میں اس محلول کی کمی کی خبریں آنا شروع ہوئیں تو سوشل میڈیا پر ایسے جراثیم کش محلول گھروں میں تیار کرنے کی ترکیبیں وائرل ہو گئی۔
مگر بہت سی ایسی ترکیبیں زمین یا گھر میں رکھی اشیا کی سطحوں کو صاف کرنے میں تو مدد گار ہو سکتی ہیں مگر جیسا کہ سائنسدانوں نے کہا ہے کہ یہ انسانی جلد کے لیے بالکل بھی موضوع نہیں ہیں۔
الکوحل والی ہاتھوں کی جیل میں عموماً جلد کو نرم، ملائم اور تازہ رکھنے والے اجزا بھی شامل ہوتے ہیں۔
لندن سکول آف ہائجین اینڈ ٹراپیکل میڈیسن سے وابستہ پروفیسر سیلی بلوم فیلڈ کہتی ہیں کہ وہ یقین نہیں کر سکتیں کہ آپ گھر میں اتنا موثر جراثیم کش محلول تیار کر سکتے ہیں۔
امریکہ کے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کا کہنا ہے کہ مختلف سطحوں کی صفائی ستھرائی کے لیے گھر میں عام دستیاب جراثیم کش محلول موثر ہوتے ہیں۔

4- پینے کے قابل سلور (چاندی)

امریکی ٹی وی شو کے میزبان جِم بکر نے اپنے ایک پروگرام میں ’کولائیڈل سلور‘ کے استعمال کی ترغیب دی تھی۔
کولائیڈل سلور دراصل کسی بھی مائع میں موجود سلور دھات کے باریک ذرات کو کہتے ہیں۔ اس پروگرام میں شریک ایک مہمان نے دعویٰ کیا کہ یہ محلول کورونا وائرس کے چند جراثیموں کو 12 گھنٹوں کے اندر مارنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ تاہم اس مہمان نے یہ بھی اعتراف کیا کہ اس محلول کا کووِڈ 19 پر کوئی تجربہ نہیں کیا گیا ہے۔
اس بات کو فیس بک پر بہت زیادہ پھیلایا گیا کہ ’ہو سکتا ہے کہ یہ محلول کورونا کے علاج میں مفید ہو۔‘ اور یہ بات پھیلانے میں وہ گروپس آگے آگے تھے جو مرکزی دھارے کی جانب سے دیے گئے طبی مشوروں کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
اس محلول کے حامی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ محلول ہر طرح کی بیماریوں کا علاج کر سکتا ہے کیونکہ یہ جراثیم کش دوا کی خصوصیات رکھتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ محلول قوت مدافعت کو بھی بہتر کرتا ہے۔ لیکن امریکی محکمہ صحت کے حکام کا واضح مشورہ ہے کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ اس قسم کی چاندی کسی بھی بیماری کے علاج میں موثر ثابت ہو سکتی ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کے استعمال کے صحت پر بہت سے مضر اثرات ہو سکتے ہیں جیسا کہ گردوں کو نقصان پہنچنا، دورے اور ارجیریا (وہ بیماری جس میں جلد نیلے رنگ کی ہو جاتی ہے) وغیرہ۔
صحت حکام کا کہنا ہے کہ آئرن اور زنک جیسی دھاتوں کے برعکس سلور ایک ایسی دھات ہے جس کا انسانی جسم میں کوئی کام نہیں ہے۔
وہ افراد جو چاندی کے محلول کی فیس بک پر تشہیر میں مشغول تھے اب انھیں فیس بک انتظامیہ کی جانب سے وارننگ پر مبنی پیغامات بھی بھیجے جا رہے ہیں۔

5- ہر 15 منٹ بعد پانی پینا

ایک پوسٹ ایسی بھی ہے جسے ہزاروں مرتبہ شیئر کیا جا چکا ہے۔ اس پوسٹ میں ’جاپانی ڈاکٹر‘ کے ایک مبینہ پیغام کو بیان کیا گیا ہے۔ اس پیغام میں کہا جا رہا ہے کہ ہر 15 منٹ بعد پانی پینے سے منھ میں موجود تمام وائرس ختم ہو جاتے ہیں۔

اس پیغام کے ایک عربی ورژن کو ڈھائی لاکھ سے زائد مرتبہ شیئر کیا جا چکا ہے۔

یونیورسٹی آف آکسفورڈ کے پروفیسر ٹروڈی لانگ کہتے ہیں کہ اس طرح کا کوئی حیاتیاتی میکینزم موجود نہیں ہے جو اس بات کو سپورٹ کرے کہ آپ فقط پانی پی کر وائرس کو اپنے منھ سے معدے میں منتقل کریں اور اسے ہلاک کر دیں۔

کورونا وائرس جیسے انفیکشن نظام تنفس کے ذریعے جسم میں اس وقت داخل ہوتے ہیں جب آپ سانس لیتے ہیں۔

بہت کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ وائرس منھ میں داخل ہو جائے، اور اگر داخل ہو بھی جائے پھر بھی لگاتار پانی پینا آپ کو وائرس کا شکار ہونے سے نہیں بچا سکتا۔

یہ اور بات ہے کہ اچھی اور مناسب مقدار میں پانی پینا آپ کی صحت کے لیے فائدہ مند ہے۔

6- گرم ضرور مگر آئس کریم سے اجتناب
اس کے علاوہ اور بہت سے ایسے مشورے ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ گرمی وائرس کو ختم کر دیتی ہے یا بہت زیادہ گرم پانی پیئں یا گرم پانی سے نہائیں اور یہاں تک کہ ہیئر ڈرائیر کا استعمال کریں۔

مختلف ممالک میں سوشل میڈیا صارفین نے ایک پوسٹ کو یہ کہتے ہوئے شیئر کیا ہے کہ یہ یونیسیف کی جانب سے جاری کی گئی ہے، حالانکہ ایسا بالکل بھی نہیں۔

Saturday, June 3, 2017

Latest job

Following staff required for our locations (Gulberg, Water Pump, Orangi Town, Baldia Town, North Karachi and Gulistan-e-Jouhar)
Operations Manger (relevant experience 3 to 5 Years)
Cash Officers (relevant experience 1 year)
Customer Services Officer (fresh and female can be considered)
Sales Manager (relevant experience 3 to 5 Years)
Sales Officer. (fresh)
Walk-in interviews will be conducted on Monday 5-Jun-17 to Friday 9-Jun-17 at 10:00 am.
Interested candidates may comes along with fresh resume at.
Telenor Bank Micro Finance
A.15, Block 7 & 8, Central Commercial Area, KCHS Union, Near Baloch Colony Flyover, Shahra-e-Faisal, Karachi.

[Kashif Mughal - HR Business Partner]
CIMA looking for a business development specialist for CIMA Karachi office. The salary range will be 80-90k.
Must have
1. 2 -3 years of relevant work experience.
2. Proven record of previous engagements in successful business development roles.
3. Socially adept.
4. Knowledge of currently position of the industry and trends.
5. Skills in prioritisation, time management and organisation.

Desirable
1. Self motivated.
2. Professionally qualified. (CIMA,ACCA)
3. Has previously worked for a professional qualification.