انٹرنیٹ پر ایسی خبریں شیئر کی جا رہی ہیں کہ اگر کورونا وائرس کا شکار ایک شخص ایبوپروفن کا استعمال کرتا ہے تو یہ خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ اس سلسلے میں صحت سے متعلق بعض تدابیر کارآمد ثابت ہوسکتی ہیں لیکن کئی مرتبہ ایسی غلط معلومات بھی سامنے آتی ہے جس میں حقیقت کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے صحت کے ماہرین نے کہا ہے کہ کورونا وائرس کی علامات کا مقابلہ کرنے کے لیے ایبوپروفن تجویز نہیں کی جاتی۔ وہ لوگ جو کسی اور وجہ سے ایبوپروفن کا استعمال کرتے ہیں ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایسا کرنے سے پہلے کسی ڈاکٹر سے رجوع کریں۔
عام طور پر گھروں میں دستیاب یہ ادویات ایبوپروفن اور پیراسیٹامول دونوں فلو جیسی علامات کی صورت میں جسمانی درجہ حرارت کم کرنے میں مدد فراہم کر سکتی ہیں۔
لیکن ایبوپروفن سمیت دوسری ادویات جو درد سے نجات دلاتی ہیں (یعنی این ایس اے آئی ڈی) ہر کسی کے لیے موزوں ثابت نہیں ہوتیں اور ان سے مضر اثرات یا سائیڈ ایفیکٹس ہوسکتے ہیں۔ اس لیے دمے، دل یا خون کی گردش سے متعلق بیماریوں کے شکار افراد کے لیے ان ادویات کی تجویز نہیں کی جاتی۔
برطانیہ میں قومی ادارۂ صحت، نیشنل ہیلتھ سروس یا این ایچ ایس کی جانب سے ماضی میں ایبوپروفن اور پیراسیٹامول کے استعمال کی تجویز دی جاتی تھی۔
لیکن اب اس کے ساتھ یہ طبی مشورا دیا جاتا ہے کہ ’اس حوالے سے کوئی ٹھوس شواہد نہیں کہ ایبوپروفن سے کورونا وائرس (کووڈ 19) مزید شدت اختیار کر لیتا ہے۔۔۔‘
’جب تک ہمارے پاس مزید معلومات نہیں آتیں، آپ کورونا وائرس کی علامات کے علاج کے لیے پیراسیٹامول استعمال کر سکتے ہیں، سوائے اگر ڈاکٹر نے آپ سے کہا ہے کہ پیراسیٹامول آپ کے لیے موزوں نہیں۔‘
این ایچ ایس کا یہ بھی کہنا ہے کہ جو لوگ کسی ڈاکٹر کے مشورے پر ایبوپروفن استعمال کر رہے ہیں انھیں رجوع کیے بغیر اس کا استعمال روکنا نہیں چاہیے۔
لندن سکول آف ہائجین اینڈ ٹراپیکل میڈیسن کی ڈاکٹر شارلٹ ویرن گیش کے مطابق ہمیں یہ معلوم نہیں کہ کورونا وائرس کی شدت یا اس بیماری کی مدت پر ایبوپروفن کا کیا مخصوص اثر ہوتا ہے۔ خاص طور پر خطرے کی زد میں مریضوں سے متعلق یہ تجویز ’بہتر ہوسکتی ہے کہ وہ پیراسیٹامول کو اپنی پہلی ترجیح سمجھ کر استعمال کریں۔‘
کچھ ایسے شواہد بھی موجود ہیں جن میں سانس لینے سے متعلق انفیکشن کی صورت میں ایبوپروفن کو طبیت زیادہ خراب ہونے سے جوڑا جاتا ہے۔
غلط معلومات
لیکن تجویز کوئی بھی ہو، انٹرنیٹ پر غلط معلومات اب بھی پھیل رہی ہے۔ واٹس ایپ پر ایسے جھوٹے پیغامات پھیل رہے ہیں جن میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ:
کارک (آئرلینڈ کے شہر) میں چار نوجوان آئی سی یو میں ہیں جن کی طبیت پہلے خراب نہیں تھی۔ یہ چاروں درد سے نجات دینے والی ادویات استعمال کر رہے تھے اور یہ تشویش ظاہر کی جا رہی ہے کہ اس کی وجہ سے ان کی طبیت مزید خراب ہوگئی (غلط)
یونیورسٹی آف ویانا نے اپنے پیغام میں لوگوں کو متنبہ کیا ہے کہ کورونا وائرس کی علامات ہونے پر ایبوپروفن نہ کھائیں ’کیونکہ یہ دریافت ہوا ہے کہ اس سے کورونا وائرس کووڈ 19 جسم میں تیزی سے اپنی افزائش کرتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اٹلی میں لوگ خراب صورتحال سے دوچار ہیں اور یہ بیماری پھیل رہی ہے” (غلط)
’فرانس میں ٹولوس یونیورسٹی ہسپتال میں (نوجوانوں میں) کورونا وائرس کے چار کیسز آئے ہیں جن کی حالت تشویش ناک ہے لیکن انھیں صحت کے مسائل نہیں تھے۔ ان سب میں جب علامات ظاہر ہوئیں تو انھوں نے ایبوپروفن جیسی درد سے نجات دلانے والی ادویات کا استعمال کیا‘ (غلط)
واٹس ایپ پر پھیلائے گئے پیغامات اب انسٹاگرام سمیت دیگر جگہوں پر بھی نظر آنے لگے ہیں۔
عام طور پر ایسے پیغامات، جنھیں کاپی پیسٹ کیا گیا ہو، کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ انھیں بھیجنے والا شخص کسی کا جاننے والا ہے جو طب کے شعبے سے وابستہ ہے۔
یہ تمام دعوے غلط ہیں
آئرلینڈ میں وبائی امراض کی تنظیم نے کہا ہے کہ واٹس ایپ پر ’کارک میں کورونا وائرس کے مریضوں سے متعلق پیغام جھوٹ پر مبنی ہے۔‘
ان کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایسے پیغامات کو ’نظر انداز کرتے ہوئے انھیں ڈیلیٹ کر دیں۔‘
ٹولوس یونیورسٹی ہسپتال نے متنبہ کیا ہے کہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر غلط معلومات پھیل رہی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ مریضوں کے علاج اور دیکھ بھال سے متعلق معلومات فراہم نہیں کی جاسکتی کیونکہ یہ طبی رازداری کی خلاف ورزی ہوگی۔
ہم ایبوپروفن اور کووڈ 19 کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟
ایبوپروفن اور عالمی وبا کورونا وائرس کووڈ 19 کے بارے میں اب تک کوئی ریسرچ نہیں ہوئی۔
لیکن نظام تنفس کے انفیکشنز پر متعدد تحقیق ہوئی ہیں جن میں اس بات کے شواہد ملے ہیں کہ ایبوپروفن کا استعمال کرنے سے مزید پیچیدگیاں اور طبیت خراب ہوسکتی ہے۔ تاہم یونیورسٹی آف ساؤتھ ہیمپٹن کے پروفیسر پال لیٹل کے مطابق ہمیں یہ معلوم نہیں کہ آیا اس کی وجہ خود ایبوپروفن ہے۔
کچھ ماہرین سمجھتے ہیں کہ ایبوپروفن کی درد سے نجات دلانے کی خاصیت جسم کی قوتِ مدافعت کے ردعمل کو ’کمزور‘ بناتی ہے۔
یورنیورسٹی آف ریڈنگ کی پروفیسر پراستو ڈونائی کہتے ہیں کہ: ’کئی مرتبہ ایسی تحقیق سامنے آچکی ہے جس میں یہ ظاہر ہوا ہے کہ نظام تنفس کے انفیکشن کی حالت میں ایبوپروفن کا استعمال مزید بیمار کر سکتا ہے یا دوسری پیچیدگیاں پیدا کر سکتا ہے۔
لیکن وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے ایسے سائنسی شواہد نہیں دیکھے جن میں یہ صاف ظاہر ہوا ہو کہ ایک 25 سالہ صحت مند شخص نے کووڈ 19 کی علامات پر ایبوپروفن کا استعمال کیا ہو اور ایسا کرنے سے خود کو اضافی پیچیدگیوں کے خطرے میں ڈالا ہو۔‘
ایک بیان میں عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ وہ 'ایبوپروفن کا استعمال نہ کرنے کی تجویز نہیں دیتے۔' 'کورونا وائرس میں بخار کی صورت میں لوگ ایبوپروفن استعمال کرتے ہیں اور ڈبلیو ایچ او اس کے استعمال کے حوالے سے موجود خدشات سے آگاہ ہے۔'
'ہم ان ڈاکٹروں سے بات چیت کر رہے ہیں جو مریضوں کا علاج کر رہے ہیں اور ایسی اطلاعات سے واقف نہیں کہ اس کے منفی اثرات مرتب ہوئے ہوں، سوائے وہ اثرات جن کی وجہ سے کچھ لوگوں کو اس کا استعمال محدود کرنے کی تجویز دی جاتی ہے۔
افواہوں سے پھیلتی کنفیوژن
لوگوں میں ایبوپروفن سے متعلق پریشانی فرانس سے پھیلی جب ٹولوس یونیورسٹی ہسپتال کے ایک ڈاکٹر نے ٹوئٹر پر متنبہ کیا کہ: ’کورونا وائرس کی اس گھڑی میں بخار یا انفیکشن کی صورت میں این ایس آئی اے ڈی ادویات سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کے خدشات یاد رکھنا ضروری ہے۔‘
فرانس کے وزیر صحت اولیوئر ویرن نے ٹویٹ میں لکھا کہ درد سے نجات دلانے والی ادویات ’انفیکشن کو بڑھا سکتی ہیں۔‘ یہ ٹویٹ 43 ہزار مرتبہ شیئر کی گئی۔ تاہم انھوں نے یہ بھی کہا کہ لوگوں کو ان ادویات کا استعمال چھوڑنے سے پہلے ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔
دیگر ٹویٹس بھی شیئر کی جارہی ہیں جن میں سے ایک میں کہا گیا کہ ایبوپروفن ’علامات سے بچے ہوئے نوجوانوں اور درمیانی عمر کے بالغ افراد میں بیماری کے شدید کیسز کو جنم دی سکتی ہے۔‘ اسے ٹوئٹر پر 94 ہزار مرتبہ شئیر کیا گیا۔
طبی شعبے میں اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے انٹرنیٹ پر ملے جلے پیغامات اور افواہیں پھیل رہی ہیں۔ یونیورسٹی آف ویانا کے نام سے پھیلائے جانے والے دعوے کو انگلش اور جرمن زبانوں میں دیکھا گیا ہے جس سے لوگوں کی رائے متاثر ہورہی ہے۔
ٹوئٹر اور فیس بک پر صارفین اپنی پورسٹس کو کٹ پیسٹ کر رہے ہیں اور ان سب میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ پیغام ایک ایسے شخص نے جاری کیا ہے جو ’ان کے خاندان میں ایک ڈاکٹر ہے‘ اور ان کے پاس ویانا کی لیب سے متعلق معلومات ہے کہ ’زیادہ تر لوگ جو کووڈ 19 سے ہلاک ہوئے ہیں ان کے جسم میں ایبوپروفن تھی۔‘
کچھ پوسٹس میں یہ تک کہہ دیا گیا کہ کورونا وائرس ’ایبوپروفن کی مدد سے بڑھتا ہے۔‘ تاہم ان افواہوں سے متعلق کوئی شواہد نہیں ہیں۔
انٹرنیٹ پر یہ افواہ واٹس ایپ پر جرمن زبان میں بھی وائس میسج اور ٹیکسٹ میسج کی صورت میں دیکھا گیا۔ اس بارے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ تمام پیغامات ایک نوجوان خاتون کی طرف سے جاری کیے گیے ہیں جنھوں نے کہا کہ ویانا کی لیب نے اٹلی میں کووڈ 19 کی وجہ سے ہونے والی ہلاکتوں کا جائزہ لیا ہے اور یہ معلوم ہوا ہے کہ اکثر افراد نے بغیر کسی ڈاکٹر کے مشورے کے ایبوپروفن استعمال کی تھی۔
جرمنی میں ادویات کی ایک ویب سائٹ (aponet.de) نے کہا ہے کہ اس پیغام میں مخصوص شواہد کا ذکر نہیں کیا گیا۔ ’سازشی نظریات کا جنم اسی طرح ہوتا ہے۔‘