Thursday, March 19, 2020

Ibuprofen: کورونا وائرس کی علامات ظاہر ہونے پر ایبوپروفن اور پیراسیٹامول کا استعمال خطرناک یا کارآمد؟

انٹرنیٹ پر ایسی خبریں شیئر کی جا رہی ہیں کہ اگر کورونا وائرس کا شکار ایک شخص ایبوپروفن کا استعمال کرتا ہے تو یہ خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ اس سلسلے میں صحت سے متعلق بعض تدابیر کارآمد ثابت ہوسکتی ہیں لیکن کئی مرتبہ ایسی غلط معلومات بھی سامنے آتی ہے جس میں حقیقت کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے صحت کے ماہرین نے کہا ہے کہ کورونا وائرس کی علامات کا مقابلہ کرنے کے لیے ایبوپروفن تجویز نہیں کی جاتی۔ وہ لوگ جو کسی اور وجہ سے ایبوپروفن کا استعمال کرتے ہیں ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایسا کرنے سے پہلے کسی ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

عام طور پر گھروں میں دستیاب یہ ادویات ایبوپروفن اور پیراسیٹامول دونوں فلو جیسی علامات کی صورت میں جسمانی درجہ حرارت کم کرنے میں مدد فراہم کر سکتی ہیں۔

لیکن ایبوپروفن سمیت دوسری ادویات جو درد سے نجات دلاتی ہیں (یعنی این ایس اے آئی ڈی) ہر کسی کے لیے موزوں ثابت نہیں ہوتیں اور ان سے مضر اثرات یا سائیڈ ایفیکٹس ہوسکتے ہیں۔ اس لیے دمے، دل یا خون کی گردش سے متعلق بیماریوں کے شکار افراد کے لیے ان ادویات کی تجویز نہیں کی جاتی۔
برطانیہ میں قومی ادارۂ صحت، نیشنل ہیلتھ سروس یا این ایچ ایس کی جانب سے ماضی میں ایبوپروفن اور پیراسیٹامول کے استعمال کی تجویز دی جاتی تھی۔

لیکن اب اس کے ساتھ یہ طبی مشورا دیا جاتا ہے کہ ’اس حوالے سے کوئی ٹھوس شواہد نہیں کہ ایبوپروفن سے کورونا وائرس (کووڈ 19) مزید شدت اختیار کر لیتا ہے۔۔۔‘

’جب تک ہمارے پاس مزید معلومات نہیں آتیں، آپ کورونا وائرس کی علامات کے علاج کے لیے پیراسیٹامول استعمال کر سکتے ہیں، سوائے اگر ڈاکٹر نے آپ سے کہا ہے کہ پیراسیٹامول آپ کے لیے موزوں نہیں۔‘

این ایچ ایس کا یہ بھی کہنا ہے کہ جو لوگ کسی ڈاکٹر کے مشورے پر ایبوپروفن استعمال کر رہے ہیں انھیں رجوع کیے بغیر اس کا استعمال روکنا نہیں چاہیے۔
لندن سکول آف ہائجین اینڈ ٹراپیکل میڈیسن کی ڈاکٹر شارلٹ ویرن گیش کے مطابق ہمیں یہ معلوم نہیں کہ کورونا وائرس کی شدت یا اس بیماری کی مدت پر ایبوپروفن کا کیا مخصوص اثر ہوتا ہے۔ خاص طور پر خطرے کی زد میں مریضوں سے متعلق یہ تجویز ’بہتر ہوسکتی ہے کہ وہ پیراسیٹامول کو اپنی پہلی ترجیح سمجھ کر استعمال کریں۔‘

کچھ ایسے شواہد بھی موجود ہیں جن میں سانس لینے سے متعلق انفیکشن کی صورت میں ایبوپروفن کو طبیت زیادہ خراب ہونے سے جوڑا جاتا ہے۔

غلط معلومات
لیکن تجویز کوئی بھی ہو، انٹرنیٹ پر غلط معلومات اب بھی پھیل رہی ہے۔ واٹس ایپ پر ایسے جھوٹے پیغامات پھیل رہے ہیں جن میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ:

کارک (آئرلینڈ کے شہر) میں چار نوجوان آئی سی یو میں ہیں جن کی طبیت پہلے خراب نہیں تھی۔ یہ چاروں درد سے نجات دینے والی ادویات استعمال کر رہے تھے اور یہ تشویش ظاہر کی جا رہی ہے کہ اس کی وجہ سے ان کی طبیت مزید خراب ہوگئی (غلط)
یونیورسٹی آف ویانا نے اپنے پیغام میں لوگوں کو متنبہ کیا ہے کہ کورونا وائرس کی علامات ہونے پر ایبوپروفن نہ کھائیں ’کیونکہ یہ دریافت ہوا ہے کہ اس سے کورونا وائرس کووڈ 19 جسم میں تیزی سے اپنی افزائش کرتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اٹلی میں لوگ خراب صورتحال سے دوچار ہیں اور یہ بیماری پھیل رہی ہے” (غلط)
’فرانس میں ٹولوس یونیورسٹی ہسپتال میں (نوجوانوں میں) کورونا وائرس کے چار کیسز آئے ہیں جن کی حالت تشویش ناک ہے لیکن انھیں صحت کے مسائل نہیں تھے۔ ان سب میں جب علامات ظاہر ہوئیں تو انھوں نے ایبوپروفن جیسی درد سے نجات دلانے والی ادویات کا استعمال کیا‘ (غلط)
واٹس ایپ پر پھیلائے گئے پیغامات اب انسٹاگرام سمیت دیگر جگہوں پر بھی نظر آنے لگے ہیں۔

عام طور پر ایسے پیغامات، جنھیں کاپی پیسٹ کیا گیا ہو، کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ انھیں بھیجنے والا شخص کسی کا جاننے والا ہے جو طب کے شعبے سے وابستہ ہے۔

یہ تمام دعوے غلط ہیں
آئرلینڈ میں وبائی امراض کی تنظیم نے کہا ہے کہ واٹس ایپ پر ’کارک میں کورونا وائرس کے مریضوں سے متعلق پیغام جھوٹ پر مبنی ہے۔‘

ان کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایسے پیغامات کو ’نظر انداز کرتے ہوئے انھیں ڈیلیٹ کر دیں۔‘

ٹولوس یونیورسٹی ہسپتال نے متنبہ کیا ہے کہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر غلط معلومات پھیل رہی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ مریضوں کے علاج اور دیکھ بھال سے متعلق معلومات فراہم نہیں کی جاسکتی کیونکہ یہ طبی رازداری کی خلاف ورزی ہوگی۔
ہم ایبوپروفن اور کووڈ 19 کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟
ایبوپروفن اور عالمی وبا کورونا وائرس کووڈ 19 کے بارے میں اب تک کوئی ریسرچ نہیں ہوئی۔

لیکن نظام تنفس کے انفیکشنز پر متعدد تحقیق ہوئی ہیں جن میں اس بات کے شواہد ملے ہیں کہ ایبوپروفن کا استعمال کرنے سے مزید پیچیدگیاں اور طبیت خراب ہوسکتی ہے۔ تاہم یونیورسٹی آف ساؤتھ ہیمپٹن کے پروفیسر پال لیٹل کے مطابق ہمیں یہ معلوم نہیں کہ آیا اس کی وجہ خود ایبوپروفن ہے۔

کچھ ماہرین سمجھتے ہیں کہ ایبوپروفن کی درد سے نجات دلانے کی خاصیت جسم کی قوتِ مدافعت کے ردعمل کو ’کمزور‘ بناتی ہے۔

یورنیورسٹی آف ریڈنگ کی پروفیسر پراستو ڈونائی کہتے ہیں کہ: ’کئی مرتبہ ایسی تحقیق سامنے آچکی ہے جس میں یہ ظاہر ہوا ہے کہ نظام تنفس کے انفیکشن کی حالت میں ایبوپروفن کا استعمال مزید بیمار کر سکتا ہے یا دوسری پیچیدگیاں پیدا کر سکتا ہے۔

لیکن وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے ایسے سائنسی شواہد نہیں دیکھے جن میں یہ صاف ظاہر ہوا ہو کہ ایک 25 سالہ صحت مند شخص نے کووڈ 19 کی علامات پر ایبوپروفن کا استعمال کیا ہو اور ایسا کرنے سے خود کو اضافی پیچیدگیوں کے خطرے میں ڈالا ہو۔‘

ایک بیان میں عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ وہ 'ایبوپروفن کا استعمال نہ کرنے کی تجویز نہیں دیتے۔' 'کورونا وائرس میں بخار کی صورت میں لوگ ایبوپروفن استعمال کرتے ہیں اور ڈبلیو ایچ او اس کے استعمال کے حوالے سے موجود خدشات سے آگاہ ہے۔'

'ہم ان ڈاکٹروں سے بات چیت کر رہے ہیں جو مریضوں کا علاج کر رہے ہیں اور ایسی اطلاعات سے واقف نہیں کہ اس کے منفی اثرات مرتب ہوئے ہوں، سوائے وہ اثرات جن کی وجہ سے کچھ لوگوں کو اس کا استعمال محدود کرنے کی تجویز دی جاتی ہے۔
افواہوں سے پھیلتی کنفیوژن
لوگوں میں ایبوپروفن سے متعلق پریشانی فرانس سے پھیلی جب ٹولوس یونیورسٹی ہسپتال کے ایک ڈاکٹر نے ٹوئٹر پر متنبہ کیا کہ: ’کورونا وائرس کی اس گھڑی میں بخار یا انفیکشن کی صورت میں این ایس آئی اے ڈی ادویات سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کے خدشات یاد رکھنا ضروری ہے۔‘

فرانس کے وزیر صحت اولیوئر ویرن نے ٹویٹ میں لکھا کہ درد سے نجات دلانے والی ادویات ’انفیکشن کو بڑھا سکتی ہیں۔‘ یہ ٹویٹ 43 ہزار مرتبہ شیئر کی گئی۔ تاہم انھوں نے یہ بھی کہا کہ لوگوں کو ان ادویات کا استعمال چھوڑنے سے پہلے ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔

دیگر ٹویٹس بھی شیئر کی جارہی ہیں جن میں سے ایک میں کہا گیا کہ ایبوپروفن ’علامات سے بچے ہوئے نوجوانوں اور درمیانی عمر کے بالغ افراد میں بیماری کے شدید کیسز کو جنم دی سکتی ہے۔‘ اسے ٹوئٹر پر 94 ہزار مرتبہ شئیر کیا گیا۔

طبی شعبے میں اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے انٹرنیٹ پر ملے جلے پیغامات اور افواہیں پھیل رہی ہیں۔ یونیورسٹی آف ویانا کے نام سے پھیلائے جانے والے دعوے کو انگلش اور جرمن زبانوں میں دیکھا گیا ہے جس سے لوگوں کی رائے متاثر ہورہی ہے۔

ٹوئٹر اور فیس بک پر صارفین اپنی پورسٹس کو کٹ پیسٹ کر رہے ہیں اور ان سب میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ پیغام ایک ایسے شخص نے جاری کیا ہے جو ’ان کے خاندان میں ایک ڈاکٹر ہے‘ اور ان کے پاس ویانا کی لیب سے متعلق معلومات ہے کہ ’زیادہ تر لوگ جو کووڈ 19 سے ہلاک ہوئے ہیں ان کے جسم میں ایبوپروفن تھی۔‘

کچھ پوسٹس میں یہ تک کہہ دیا گیا کہ کورونا وائرس ’ایبوپروفن کی مدد سے بڑھتا ہے۔‘ تاہم ان افواہوں سے متعلق کوئی شواہد نہیں ہیں۔

انٹرنیٹ پر یہ افواہ واٹس ایپ پر جرمن زبان میں بھی وائس میسج اور ٹیکسٹ میسج کی صورت میں دیکھا گیا۔ اس بارے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ تمام پیغامات ایک نوجوان خاتون کی طرف سے جاری کیے گیے ہیں جنھوں نے کہا کہ ویانا کی لیب نے اٹلی میں کووڈ 19 کی وجہ سے ہونے والی ہلاکتوں کا جائزہ لیا ہے اور یہ معلوم ہوا ہے کہ اکثر افراد نے بغیر کسی ڈاکٹر کے مشورے کے ایبوپروفن استعمال کی تھی۔

جرمنی میں ادویات کی ایک ویب سائٹ (aponet.de) نے کہا ہے کہ اس پیغام میں مخصوص شواہد کا ذکر نہیں کیا گیا۔ ’سازشی نظریات کا جنم اسی طرح ہوتا ہے۔‘

Wednesday, March 18, 2020

Latest figures about Corona casualties and recoveries



Tuesday, March 17, 2020

Covid-19: How long does the coronavirus last on surfaces?

We can pick up the Covid-19 by touching surfaces contaminated with the new coronavirus, but it is only just becoming clear how long the virus can survive outside the human body.


A
As Covid-19 has spread, so has our fear of surfaces. There are now some familiar scenes in public places around the world – people trying to open doors with their elbows, commuters studiously surfing their way through train journeys to avoid grabbing a handle, office workers rubbing down their desks each morning.
In the areas worst hit by the new coronavirus, teams of workers in protective clothing have been dispatched to spray a fog of disinfectant in plazas, parks and public streets. Cleaning regimes in offices, hospitals, shops and restaurants have been increased. In some cities, well-meaning volunteers even venture out at night to scrub the keypads of cash machines.
Like many respiratory viruses, including flu, Covid-19 can be spread in tiny droplets released from the nose and mouth of an infected person as they cough. A single cough can produce up to 3,000 droplets. These particles can land on other people, clothing and surfaces around them, but some of the smaller particles can remain in the air. There is also some evidence that the virus is also shed for longer in faecal matter, so anyone not washing their hands thoroughly after visiting the toilet could contaminate anything they touch.
It is worth noting that, according to the Centers for Disease Control and Prevention, touching a surface or object with the virus and then touching one's own face "is not thought to be the main way the virus spreads". Even so, the CDC, the World Health Organization and others health authorities, have emphasised that both washing one's hands and cleaning and disinfecting frequently touched surfaces daily are key in preventing Covid-19's spread. So although we still don't know exactly how many cases are being caused directly by contaminated surfaces, experts advise exercising caution.
One aspect that has been unclear is exactly how long SARS-CoV-2, the name of the virus that causes the disease Covid-19, can survive outside the human body. Some studies on other coronaviruses, including Sars and Mers, found they can survive on metal, glass and plastic for as long as nine days, unless they are properly disinfected. Some can even hang around for up to 28 days in low temperatures.
Coronaviruses are well known to be particularly resilient in terms of where they can survive. And researchers are now beginning to understand more about how this affects the spread of the new coronavirus.
Neeltje van Doremalen, a virologist at the US National Institutes of Health (NIH), and her colleagues at the Rocky Mountain Laboratories in Hamilton, Montana, have done some of the first tests of how long SARS-CoV-2 can last for on different surfaces. Their study, which has yet to be published in a scientific journal, shows that the virus could survive in droplets for up to three hours after being coughed out into the air. Fine droplets between 1-5 micrometres in size – about 30 times small than the width of a human hair – can remain airborne for several hours in still air.

It means that the virus circulating in unfiltered air conditioning systems will only persist for a couple of hours at the most, especially as aerosol droplets tend to settle on surfaces faster in disturbed air.

But the NIH study found that the SARS-CoV-2 virus survives for longer on cardboard – up to 24 hours – and up to 2-3 days on plastic and stainless-steel surfaces. (Learn how to clean your mobile phone properly.)

The findings suggest the virus might last this long on door handles, plastic-coated or laminated worktops and other hard surfaces. The researchers did find, however, that copper surfaces tended to kill the virus in about four hours.

But there is a speedier option: research has shown that coronaviruses can be inactivated within a minute by disinfecting surfaces with 62-71% alcohol, or 0.5% hydrogen peroxide bleach or household bleach containing 0.1% sodium hypochlorite. Higher temperatures and humidity also tend to result in other coronaviruses dying quicker, although research has shown that a related coronavirus that causes Sars could be killed by temperatures above 56°C or 132°F (hotter than even a bath scalding enough to cause injury) at a rate of about 10,000 viral particles every 15 minutes.

Although there is no data on how many virus particles will be in a single droplet coughed up by an infected person, research on the flu virus suggests smaller droplets can contain many tens of thousands of copies of the influenza virus. However, this can vary depending on the virus itself, where in the respiratory tract it is found and at what stage in the infection the person is.

The researchers did find, however, that copper surfaces tended to kill the virus in about four hours. 

On clothing and other surfaces harder to disinfect, it is not yet clear how long the virus can survive. Although they are still do test it on clothing, the absorbent natural fibres may cause the virus to dry up quickly, suggests Vincent Munster, head of the virus ecology section at Rocky Mountain Laboratories and one of those who led the NIH study.

“We speculate due to the porous material, it desiccates rapidly and might be stuck to the fibres,” he says. Changes in temperature and humidity may also affect how long it can survive, and so may explain why it was less stable in suspended droplets in the air, as they are more exposed. “[We’re] currently running follow-up experiments to investigate the effect of temperature and humidity in more detail.”

The ability of the virus to linger for so long only underlines the importance of hand hygiene and cleaning of surfaces, according to Munster.

“There is a potential for this virus to be transmitted via a variety of routes,” he says. 


Early Signs of Covid-19 from Ministry of Health Singapore - A Brief.


RECOGNISING THE SYMPTOMS OF COVID-19 FROM DAY TO DAY

DAY 1-3
1. Symptoms similar to colds.
2. Mild throat pain.
3. No fever, not tired. Still consume food and drink as normal.

DAY 4
1. Throat little bit painful, body feels like drunk.
2. Voice becoming sore.
3. Body temperature around 36.5°.
4. Beginning of disturbance on eating habit.
5.Mild headaches
6. Mild diarrhea

DAY 5
1. Throat pain and sore voice
2. Mild body heatiness. Body temperature btw 36.5°-36.7°.
3. Weak body and feeling joints pain.

DAY 6
1. Beginning of mild fever with temperature around 37°
2. Dry cough
3. Throat pain while eating, swallowing food or talking.
4. Exhausted and nausea
5. Difficulty in breathing occasionally
6. Fingers feeling pain
7. Diarrhea and vommitting

DAY 7
1. Higher fever from 37.4°-37.8°
2. Coughing incessantly with phlegm.
3. Body pain and headache.
4. Worsening diarrhea.
5. Vommitting

DAY 8
1.Fever around 38° or above 38°
2. Breathing difficulties, everytime breathing, chest feels heavy.
3. Coughing incessantly.
4. Headaches, joints becoming lame and buttock pain.

DAY 9.
1. Symptoms remain unchanged but becoming worst
2. Worsening fever
3.Worsening cough
4. Difficulties in breathing and have to struggle hard to breath.

At this stage, blood test and chest x-ray need to be conducted immediately.

As a reference only. At any point of time, if do not feel well, should consult medical doctor immediately. Thank you.

Repost

کورونا وائرس آپ کے جسم کے ساتھ کرتا کیا ہے؟

کورونا وائرس گذشتہ برس دسمبر میں سامنے آیا لیکن اب کوویڈ-19 عالمی وبا کی شکل اختیار کر گیا ہے۔

اس بیماری میں مبتلا ہونے والے زیادہ تر افراد میں اس بیماری کا اتنا اثر نہیں ہوتا اور وہ صحت یاب بھی ہو رہے ہیں، تاہم کچھ افراد اس کی وجہ سے ہلاک بھی ہو چکے ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ یہ وائرس جسم پر کیسے اثر انداز ہوتا ہے، اس کے نتیجے میں کچھ افراد ہلاک کیوں ہو رہے ہیں اور اس بیماری کا علاج کیسے کیا جاتا ہے؟
اس دورانیے میں وائرس اپنی جگہ پکڑ رہا ہوتا ہے۔ وائرسز عام طور پر آپ کے جسم کے خلیوں کے اندر تک رسائی حاصل کر کے ان کا کنٹرول سنبھال لیتے ہیں۔

کورونا وائرس جسے سارس-کووی-2 کہا جا رہا ہے آپ کے جسم پر اس وقت حملہ آور ہوتا ہے جب آپ سانس کے ذریعے اسے اندر لے جاتے ہیں (جب کوئی قریب کھانسے) یا آپ کسی ایسی چیز کو چھونے کے بعد اپنے چہرے کو چھو لیں جس پر وائرس موجود ہو۔

سب سے پہلے یہ وائرس ان خلیوں کو متاثر کرتا ہے جو آپ کے گلے، سانس کی نالی اور پھیپھڑوں میں ہوتے ہیں اور انھیں 'کورونا وائرس کی فیکٹریوں' میں تبدیل کر دیتا ہے جو مزید ایسے مزید وائرس پیدا کرتی ہیں جن سے مزید خلیے متاثر ہوتے ہیں۔

ابتدائی مرحلے میں آپ بیمار نہیں ہوں گے اور اکثر افراد میں اس بیماری کی علامات بھی ظاہر نہیں ہوں گی۔

نگہداشت کے دورانیے میں انفیکشن ہونے اور اس کی علامات ظاہر ہونے کا دورانیہ مختلف ہوتا ہے لیکن یہ اوسطاً پانچ دن بتایا جاتا ہے۔

ہلکی پھلکی بیماری
زیادہ تر افراد کے بیماری کے دوران ایک جیسے تاثرات ہوتے ہیں۔ کوویڈ-19 دس میں سے آٹھ افراد کے لیے ایک معمولی انفیکشن ثابت ہوتا ہے اور اس کی بنیادی علامات میں بخار اور کھانسی شامل ہیں۔

جسم میں درد، گلے میں خراش اور سر درد بھی اس کی علامات میں سے ہیں لیکن ان علامات کا ظاہر ہونا ضروری نہیں ہے۔

بخار اور طبیعت میں گرانی جسم میں انفیکشن کے خلاف قوت مدافعت کے رد عمل کی وجہ سے ہوتی ہے۔ یہ وائرس کو ایک مشکلات پیدا کرنے والے حملہ آور کے طور پر شناخت کرتا ہے اور پورے جسم میں سائٹوکنز نامی کیمیائی مادہ خارج کرکے سنگل بھیجتا ہے کہ کچھ گڑ بڑ ہو رہی ہے۔

اس کی وجہ سے جسم میں مدافعتی نظام حرکت میں آجاتا ہے لیکن اس کی وجہ سے جسماںی درد، تکلیف اور بخار کی کیفیات بھی پیدا ہوتی ہیں۔

کورونا وائرس میں ابتدائی طور پر خشک کھانسی ہوتی ہے (بلغم نہیں آتا) اور یہ شاید خلیوں میں وآئرس کی وجہ سے متاثر ہونے کی وجہ سے پیدا ہونے والی پیچینی کی وجہ سے ہوتی ہے۔

کچھ لوگوں کو آخر کار بلغم جیسا گاڑھا مواد آنے لگتا ہے جس میں وائرس کی وجہ سے مرنے ہونے والے خلیے بھی شامل ہوتے ہیں۔

ان علامتوں کو آرام، بہت زیادہ مقدار میں پانی اور مشروب کے ساتھ پیراسیٹامول لے کر دور کیا جا سکتا ہے۔ آپ کو اس کے لیے ہسپتال یا ڈاکٹر کی ضرورت نہیں ہے۔

یہ مرحلہ ایک ہفتے تک جاری رہتا ہے بیشتر لوگ اسی مرحلے پر صحت یاب ہو گئے کیونکہ ان کے مدافعتی نظام نے وائرس سے مقابلہ کیا۔

تاہم کچھ لوگوں میں کووڈ-19 کی نسبتاً سنگیں حالت پیدا ہوئی۔

ہم اب تک اس مرحلے کے بارے میں اتنا ہی جان پائے ہیں تاہم زمینی مشاہدوں سے پتا چلا ہے کہ اس بیماری میں سردی لگ جانے جیسی علامات بھی پائی گئی ہیں جن میں ناک کا بہنا شامل ہیں۔

یہ انفیکشن پھیپھڑوں کو متاثر کرتا ہے
شدید بیماری
اگر یہ بیماری بڑھتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ مدافعتی نظام وائرس کے تیئں ضرورت سے زیادہ رد عمل دکھا رہا ہے۔

جسم میں بھیجے جانے والے کیمیائی سگنل جلن کا باعث بنتے ہیں۔ تاہم اسے بہت نزاکت سے متوازن کیا جانا چاہیے۔ بہت زیادہ انفلیشین سے پورے جسم میں نقصانات ہوتے ہیں۔

کنگز کالج لندن کے ڈاکٹر نتھالی میکڈرموٹ کا کہنا ہے کہ ’یہ وائرس مدافعتی نظام میں عدم توازن پیدا کرتا ہے اس کی وجہ سے بہت زیادہ سوزش ہوتی ہے اور یہ کس طرح کا ہے ابھی ہم یہ جان نہیں پائے۔‘

پھیپھڑوں کی انفلیمیشن کو نمونیہ کہتے ہیں۔ اگر منہ کے راستے اندر جانا ممکن ہوتا تو آپ ہوا کی نالی سے ہو کر چھوٹی چھوٹی ٹیوبز سے گزر کر چھوٹی چھوٹی ہوا کی تھیلیوں میں جا پہنچتے۔

یہ وہ جگہ ہے جہاں آکسیجن خون میں شامل شامل ہوتی ہے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ باہر نکلتی ہے لیکن نمونیہ کی حالت میں انہی چھوٹی چھوٹی تھیلیوں میں پانی بھر جاتا ہے اور سانس اکھڑنے لگتا ہے اور سانس لینے میں دشواری ہونے لگتی ہے۔

کچھ لوگوں کو سانس لینے کے لیے وینٹیلیٹر کا سہارا لینا پڑتا ہے۔

چین سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق 14 فیصد لوگ اس مرحلے تک متاثر ہوئے۔

تشویش ناک بیماری
ایک اندازے کے مطابق اس بیماری میں مبتلا افراد میں سے صرف چھ فیصد کی حالت تشویش ناک حد تک پہنچی۔

اس وقت جسم نے کام کرنا چھوڑ دیا اور موت کے امکانات پیدا ہو گئے۔

مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت مدافعتی نظام بے قابو ہو کر گھومنے لگتا ہے اور پورے جسم کو نقاصان پہنچاتا چلا جاتا ہے۔

اس کی وجہ سے جسم سیپٹیک شاک میں چلا جاتا ہے اور فشار خون خطرناک حد تک کم ہو جاتا ہے اور اعضا کام کرنا بند کر دیتے ہیں یا مکمل طور پر ناکارہ ہو جاتے ہیں۔

پھیپھڑوں میں انفلیمینش کے سبب سانس کی شدید تکلیف پیدا ہوتی ہے اور جسم میں ضرورت کے مطابق آکسیجن نہیں پہنچ پاتی۔ اس کی وجہ سے گردوں کی صفائی کا عمل رک جاتا ہے اور آنتوں کی تہیں خراب ہو جاتی ہیں۔

ڈاکٹر بھرت پنکھانیا کا کہنا ہے کہ ’اس وائرس سے اس قدر انفلیمیشن ہوتی ہے کہ لوگ دم توڑ دیتے ہیں اور کئی اعضا کام کرنا بند کر دیتے ہیں۔‘

اگر مدافعتی نظام اس وائرس پر قابو پانے میں ناکام ہوتا ہے تو یہ جسم کے ہر کونے میں چلا جاتا ہے جس سے مزید نقصان ہوتا ہے۔

اس مرحلے تک آتے آتے علاج بہت ہی سخت ہو سکتا ہے جس میں ای سی ایم او یعنی ایکسٹرا کورپوریئل ممبرین آکسیجینیشن شامل ہے۔

یہ ایک مصنوعی پھیپھڑا ہوتا ہے جو موٹی موٹی ٹیوبز کے ذریعے خون جسم سے نکالتا ہے ان میں آکسیجن بھرتا اور واپس جسم میں ڈالتا ہے۔

لیکن آخر کار نقصان ہلاکت تک جا پہنچتا ہے اور اعضا جسم کو زندہ رکھنے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔

ابتدائی اموات

ڈاکٹرز نے بتایا کہ ان کی بہترین کوششوں کے باجود کیسے کچھ مریض ہلاک ہوگئے۔

چین کے شہر ووہان کے ہسپتال میں جو پہلے دو مریض ہلاک ہوئے وہ پہلے صحت مند تھے، اگرچہ وہ طویل عرصے سے تمباکو نوشی کرتے تھے۔ اسی وجہ سے ان کے پھیپھڑے کمزور تھے۔

پہلے 61 سالہ ایک آدمی کو ہسپتال لانے تک شدید نمونیہ ہوگیا۔ انھیں سانس لینے میں شدید تکلیف تھی اور وینٹیلیٹر پر ڈالنے کے باوجود ان کے پھیپھڑے ناکارہ ہو گئے اور دل نے کام کرنا بند کر دیا۔ وہ 11 دن بعد مر گئے۔

دوسرے مریض 69 برس کے تھے انھیں بھی سانس کی تکلیف ہوئی۔ انھیں بھی مشینوں کی مدد سے زندہ رکھنے کی کوشش کی گئی لیکن یہ ناکافی ثابت ہوا۔ وہ شدید نمونیا اور سیپٹیک شاک کی وجہ سے اس وقت ہلاک ہوگئے جب ان کا بلڈ پریشر گر گیا۔

Monday, March 16, 2020

وائرس: بچوں کو کورونا وائرس کے متعلق بتانا ہے، ڈرانا نہیں


کورونا وائرس یا کووڈ 19 کی عالمی تباہی کی لپٹ میں ہر کوئی ہے۔ جن لوگوں کو یہ نہیں لگی وہ اس کے خوف میں رہ رہے ہیں اور یہ خوف بالکل حقیقی ہے جس سے کوئی فرار نہیں۔ یہ وبا دنیا کے مختلف ممالک میں تیزی سے ایک انسان سے دوسرے انسان تک پھیل رہی ہے اور چین سے لے کر امریکہ تک متاثرہ افراد کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ فی الوقت اسے روکنے کا اگر کوئی طریقہ ہے تو وہ ہے خود کو روکنا، مطلب اپنے روز مرہ کی عادات میں تبدیلی لانا۔ اس میں ہاتھ دھونے سے لے کر ہاتھ ملانے اور گلے ملنے سے لے کر ان جگہوں پر اکٹھا ہونا شامل ہے جہاں مجمع زیادہ ہے۔ جتنا کم گھر سے نکلیں اتنا ہی بہتر ہے۔ بس یہ سمجھ لیں کہ کم ملنے سے محبت کم نہیں ہو رہی بلکہ اپنا اور دوسرے کا بھلا ہو رہا ہے۔

پر یہاں سب سے بڑا مسئلہ والدین، خصوصی طور پر کام کرنے والے والدین کا ہے کہ وہ کس طرح بچوں کو سمجھائیں کہ یہ وائرس کیا ہے، کتنا خطرناک ہے اور اس سے کیسے بچنا چاہیئے۔ بچے بچے ہوتے ہیں، چیزیں اپنی طرح سے سمجھتے ہیں اور ہر کوئی ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ تو پھر ہم بچوں کو کیسے بتائیں؟

بچوں کے ساتھ کورونا وائرس کے متعلق گفتگو کرنے سے اجتناب نہ کریں
زیادہ تر بچوں نے اس وائرس کے متعلق پہلے ہی سنا ہو گا یا انھوں نے لوگوں کو ماسک پہنے چلتے پھرتے دیکھا ہو گا۔ سو والدین کو کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اس پر بات کرنے سے ہچکچائیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ جس طرح والدین بچے کو اس کی صلاحیت کے مطابق کوئی خبر سمجھا سکتے ہیں شاید دوسرے نہیں سمجھا سکتے۔ وہ آپ کی بات سنتا، سمجھتا اور سوال کرتا ہے۔

بچوں کو یہ بتانا ضروری ہے کہ یہ عالمی وبا کیوں ہے
بچوں سے پوچھیں کہ وہ اس وائرس کے متعلق کیا جانتے ہیں
اپنے بچوں کو کہیں کہ اگر وہ اس وائرس کے متعلق آپ سے کچھ جاننا چاہتے ہیں تو وہ ضرور پوچھیں۔ ضروری نہیں کہ بہت زیادہ ڈرانے والی ہی معلومات دی جائیں لیکن پھر بھی سچ بولتے ہوئے انھیں اس کے متعلق بتایا جا سکتا ہے کہ اسے عالمی وبا کیوں کہا گیا ہے اور کیوں یہ اس وقت دوسری بیماریوں سے زیادہ خطرناک ہے۔

یہ بھی ضروری نہیں کہ آپ اپنے بچوں کے سبھی سوالوں کا جواب دے سکیں لیکن آپ کا انھیں سننا اور ان سے اس موضوع پر بات کرنا ضروری ہے۔ جس سوال کا جواب نہ آئے تو انھیں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ چلو اس کا جواب ڈھونڈتے ہیں۔

مختلف عمروں کے بچوں کو مختلف طریقے کورونا وائرس کے متعلق بتائیں
ہاتھ دھوئیں، ہاتھ دھوئیں اور بس ہاتھ دھوئیں

یونیورسٹی ہسپتال برمنگھم کی کنسلٹنٹ آنکولوگسٹ ڈاکٹر سندس یحیٰ کہتی ہیں کہ بس دھیان یہ رکھیں کہ بات آسان زبان میں ہو۔ 'اس بیماری کو سیدھی اور آسان زبان میں سمجھانا چاہیئے کہ آگہی بھی دی جائے اور خوف بھی پیدا نہ ہو۔'

انھوں نے کہا کہ میں نے آج ہی اپنے آٹھ سالہ بچے سے گفتگو کی جو کہ تقریباً اس طرح تھی۔

’وائرس ایک ایسی چیز ہوتی ہے ایک صحت مند سیل یا خلیے کو اپنے کاپی بنا لیتی ہے تاکہ صحت مند سیل اپنا کام صحیح طریقے سے نہ کر سکے‘
'کووڈ19 ایک نیا بگ یا جراثیم ہے جو لوگوں کو بیمار کر دیتا ہے۔ یہ کورونا وائرسز کے خاندان سے ہے اور ڈاکٹر اور سائنسدان اس کے متعلق زیادہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔

وائرس ایک ایسی چیز ہوتی ہے جو ایک صحت مند سیل یا خلیے کو اپنے کاپی بنا لیتی ہے تاکہ صحت مند سیل اپنا کام صحیح طریقے سے نہ کر سکے۔

ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ زیادہ تر لوگ خصوصاً بچے ٹھیک رہیں گے لیکن شاید کچھ لوگ بیمار ہو جائیں اور آپ سب لوگوں کے صحت مند رہنے میں مدد کر سکتے ہیں۔

یہ ایک شخص سے دوسرے کو کھانسی، چھینک، گندی جگہوں کو چھونے، گندے ہاتھ ملانے اور پھر ان ہاتھوں سے اپنے چہرے، منہ اور ناک کو چھونے سے لگ سکتا ہے۔

جب جراثیم جسم میں مختلف جگہوں سے گزرتا ہے تو لوگوں کو کھانسی ہوتی ہے، ٹھنڈ لگتی ہے، بخار اور سر درد ہوتا ہے اور سینے میں انفیکشن کی وجہ سے سانس پھولتا ہے۔

آپ اس سے سکول، گھر اور کھیل کے دوران محفوظ رہ سکتے ہو اور وہ اس طرح کہ بس ہر ایکٹیویٹی کے پہلے اور بعد زیادہ ہاتھ دھوئیں، خصوصاً کھانا کھانے سے پہلے اور ٹوائلٹ استعمال کرنے کے بعد۔

20 سیکنڈ یا اس سے زیادہ ہاتھ دھوئیں، بلبلے بنانا نہ بھولیں، دو مرتبہ اپنے لیے ہیپی برتھ ڈے گانا گائیں۔ بس اتنی سی بات۔ اور اگر کہیں صابن اور پانی نہ ہو تو ہینڈ جیل یا سینیٹائیزر استعمال کریں۔

اگر آپ کو لگے کہ ناک بہہ رہا ہے، کھانسی یا چھینک آ رہی ہے تو ٹشو پکڑیں اس سے صاف کریں اور بن میں پھینک دیں تاکہ جراثیم مر جائیں۔ پھر ہاتھ دھوئیں تاکہ یہ جراثیم کسی دوسرے کو نہ لگ جائیں۔

کھانسی یا چھینک آئے اور کہیں ٹشو نہ ملے تو کہنی کو ٹیڑھا کر کے اس کے درمیان میں چھینکیں یا کھانسیں۔

بس ہاتھ دھوئیں، ہاتھ دھوئیں اور ہاتھ دھوئیں تاکہ آپ اور دوسرے محفوظ رہیں۔'

کس عمر کے بچے کو کیا اور کیسے بتانا ہے
اگر بچہ 15 سال کا ہے تو وہ اس وائرس کو اور طریقے سے سمجھے گا بہ نسبت پانچ سال کے بچے کے۔ آپ ایک 15 سالہ بچے سے اس وبا سے بچاؤ، اس کی علامات اور اس کے دنیا کو لاحق خطرات کے متعلق بات کر سکتے ہیں۔ لیکن پانچ سالہ بچے کا ذہن اتنا پختہ نہیں ہوتا۔ اس کو اس وائرس کے متعلق معلومات دنیا تو بہت ضروری ہے لیکن اس کی زبان میں ہی۔ مقصد انھیں یہ بتانا ہے کہ اس وبا کی وجہ سے ہمیں زندگی کے کچھ طریقے بدلنے پڑیں گے اور وہ اس کے لیے تیار رہیں۔


بچوں کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ بار بار ہاتھ دھوئیں
کیسے ان سوالوں کا جواب دیں؟
کیا میں بیمار ہو جاؤں گا؟ کیا سکول بند ہو جائے گا؟ کیا ہم سب مر جائیں گے؟ ہم کیا کریں؟

ماہرین کے مطابق سب سوالوں کے جواب دینا ضروری ہے تاکہ بچے کا ننھا ذہن مزید نہ الجھے، لیکن اس کو ڈرائے بغیر۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ بیٹا جب سکول سے آؤ تو دادا دادی کے کمرے میں ان سے سیدھے گلے ملنے نہ جاؤ، یہ ان کے لیے بہتر ہے۔ بچہ آپ سے وجہ پوچھے گا تو اسے وجہ بتائیں۔

آپ نے اسے دانت صاف کرنے یا ہاتھ دھونے کا تو بچپن سے ہی سکھایا ہو گا۔ لیکن متعدد بار ایک خاص وقت تک ہاتھ صاف کرنے کے لیے کوئی نیا طریقہ اپنانے کی ضرورت ہے۔ بچے سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ آپ کے ساتھ مل کر باتھ روم میں ہاتھ دھوتے ہوئے اپنی پسندیدہ نرسری راہیم سنائے اور 'دیکھتے ہیں کہ ہاتھ دھوتے ہوئے کس کو پوری نظم یاد رہتی ہے۔' اس طرح آپ ہنستے ہنستے ہاتھ دھو لیں گے۔ مقصد صرف بیس سیکنڈ تک ہاتھ دھونا ہے اور بچہ آپ سے مقابلے میں یہی کام کر لے تو کیسا ہے۔

Sunday, March 15, 2020

Coronavirus: کورونا وائرس اور نزلہ زکام میں فرق کیا ہے اور کیسے پتا چلے گا کہ یہ بیماری کورونا ہے یا عام فلُو

آج کل فلُو یا نزلے زکام کا موسم ہے، جسے دیکھیں چھینکیں مارتا یا ناک صاف کرتا دکھائی دیتا ہے۔ جسے زکام ہوتا ہے وہ خود ہی کہہ دیتا ہے کہ مجھ سے دور رہیں کہیں آپ کو بھی جراثیم نہ لگ جائیں۔

یا پھر آپ خود ہی اس متاثرہ شخص کے پاس جانے سے پرہیز کرتے ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، ایسا ہر سال ہوتا ہے، تاہم اس مرتبہ ایک بات نئی ضرور ہے۔

آپ لندن میں ٹرین میں بیٹھیں ہیں اور ایک دم کسی کو چھینک یا چھینکیں آنے لگتی ہیں تو پہلے تو لوگ آپ کو غور سے دیکھنے لگتے ہیں اور اس کے بعد آہستہ آہستہ 
سرکتے ہوئے دور جانے لگتے ہیں۔
یہی حال دوسرے ممالک میں بھی ہے۔ کہیں تو لوگ ایک دوسرے سے ملتے وقت صرف اشاروں کی زبان استعمال کرنے لگے ہیں۔ لطیفے بن رہے ہیں، ویڈیوز اور میمز بن رہی ہیں۔

انٹرنیٹ پر وائرل ایک ویڈیو میں ایران میں دوستوں کو ایک دوسرے سے ہاتھ کے بجائے پیر اور ٹانگیں ملاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ایسا ہی تنزانیہ کے صدر نے بھی کیا۔

یہ ڈر ہے اس نئے وائرس کا جسے نویل کورونا وائرس یا کووڈ ۔ 19 کہتے ہیں اور یہ ڈر آہستہ آہستہ ہمارے دماغوں اور سوچوں میں سرایت کرتا جا رہا ہے، جو کبھی لطیفے کی شکل میں نکلتا ہے تو کبھی فکر کے اظہار کی شکل میں۔

میرا بیٹا جس نے کبھی سردی کی بھی پرواہ نہیں کی آج کل جیب میں سینیٹائیزر لیے گھومتا ہے۔

آخر یہ ڈر کیا ہے؟
اگرچہ یہ موسم فلو کا ہے اور امریکہ سے لے کر پاکستان تک لوگ اس کا شکار ہیں تو پھر بھی لوگ فلو کے متعلق نہیں بلکہ کورونا وائرس کے متعلق ہی بات کر رہے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق انفلوینزا یا فلو کی وجہ سے ہر سال تقریباً 30 سے 50 لاکھ کے قریب انسان شدید بیمار ہوتے ہیں، جن میں سے دو لاکھ 90 ہزار سے لے کر چھ لاکھ 50 ہزار تک متعدد سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہو کر ہلاک ہو جاتے ہیں۔

امریکہ کے سینٹر فار ڈزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن سینٹر (سی ڈی سی) کے مطابق 2019 سے لے کر 2020 کے فلو کے سیزن میں اب تک 18 ہزار سے 46 ہزار کے درمیان فلو سے جڑی اموات ہوئی ہیں۔

مطلب یہ کہ فلو ایک انتہائی جان لیوا بیماری ہے لیکن ہم ہمیشہ اس کے متعلق یہ کہتے ہیں کہ آرام کریں یہ خود ہی ایک یا دو ہفتے میں ٹھیک ہو جائے گا۔ فلو اپنا ٹائم لیتا ہے۔ لیکن کورونا؟ یہاں بات ذرا مختلف ہے۔
کورونا کا خطرہ
عالمی ادارہ صحت کے مطابق کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے پیش نظر دنیا کو ایک ’نامعلوم خطرے‘ کا سامنا ہے۔

عالمی سطح پر اس وائرس سے اموات کی تعداد 3000 سے تجاوز کر گئی ہے، جن میں زیادہ تر چینی باشندے شامل ہیں۔ تاہم نئے اعداد و شمار کے مطابق چین کی نسبت دیگر ممالک میں اس وائرس سے متاثرہ افراد میں نو گنا اضافہ ہوا ہے۔

چین کے بعد اس وائرس کے سب سے زیادہ مریض جنوبی کوریا میں ہیں جہاں تصدیق شدہ مریضوں کی تعداد 5000 سے تجاوز کر گئی ہیں لیکن وہاں ابھی تک اس وائرس سے صرف 22 افراد کی ہلاکت کی اطلاع ہے۔

اس کے برعکس پاکستان کے ہمسایہ ملک ایران میں متاثرہ افراد کی تعداد 2500 کے لگ بھگ ہے اور وہاں اموات کی تعداد 77 بتائی جا رہی ہے۔

ایران کے بعد کورونا وائرس کے سب سے زیادہ مریض اٹلی میں ہیں جن کی تعداد دو ہزار سے کچھ زیادہ ہے اور اب تک اس وائرس سے وہاں 52 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

برطانیہ میں کورونا وائرس کے ابھی تک 40 تصدیق شدہ مریض ہیں لیکن حکومت کی ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں کورونا وائرس کے عروج پر اس کی 20 فیصد تک آبادی کام سے چھٹی لے سکتی ہے اور اگر وائرس پھیلا تو فوج کو بھی مدد کے لیے بلایا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں ابھی تک پانچ تصدیق شدہ کیسز ہیں اور حکومت کہہ رہی ہے کہ معاملات ابھی اس کے کنٹرول میں ہیں۔ پاکستان میں کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے پانچ افراد میں سے تین کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے جبکہ دو کا تعلق کراچی سے بتایا جا رہا ہے۔

نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ سائنسز کے حکام کے مطابق گلگت بلتستان سے مزید 12 مشتبہ افراد کے خون کے نمونے بھی ٹیسٹ کے لیے حاصل کیے گئے ہیں۔ پیر کو گلگت بلتستان حکومت نے تمام نجی و سرکاری تعلیمی اداروں کو وائرس سے بچاؤ اور حفاظتی اقدامات کے پیش نظر سات مارچ تک بند کر دیا تھا۔

پاکستان نے صوبہ بلوچستان کے سرحدی علاقے چمن سے ملحقہ افغانستان کی سرحد کو بھی بند کر دیا ہے۔

28 فروری کو کووِڈ-19 یا کورونا پر امریکی جریدے جاما میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق اس میں مبتلا 83 سے لے کر 98 فیصد افراد کو بخار چڑھتا ہے، 76 سے 82 فیصد کو خشک کھانسی آتی ہے اور 11 سے 44 فیصد کو تھکن اور پٹھوں میں درد کی شکایت رہتی ہے۔
فلُو بمقابلہ کورونا وائرس
برطانیہ میں پاکستانی نژاد ڈاکٹروں کی تنظیم ایسوسی ایشن آف پاکستانی فیزیشنز اینڈ سرجنز آف دی یونائیٹڈ کنگڈم (اے پی پی ایسی یو کے) کے بانی رکن اور سی ای او ڈاکٹر عبدالحفیظ کہتے ہیں کہ ہم فلو اور کورونا کا موازنہ ابھی نہیں کر سکتے کیونکہ ہمیں فلو کے متعلق تو پتا ہے جبکہ کورونا کے متعلق کچھ نہیں پتا۔ ’ابھی تحقیق ہو رہی ہے لیکن وہ ابتدائی مراحل میں ہے۔ اور جب وہ ایمرجنسی میں ٹیسٹ کی جائے گی تو بھی وہ ان تجرباتی مراحل سے گزر کر نہیں آئے گی جن سے دوائیاں گزر کر آتی ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ وائرس جتنی تیزی سے پھیل رہا ہے اتنی تیزی سے اس پر تحقیق نہیں ہو رہی ہے۔

کیسے پتا چلے گا کہ کسی شخص کو عام فلو ہے یا کورونا وائرس؟
ڈاکٹر حفیظ کا کہنا ہے کہ کسی کی چھینک یا نزلے زکام کو بظاہر دیکھ کر یہ پتا لگانا ابھی ناممکن ہے کہ اسے عام فلو ہے یا کورونا وائرس۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ہم یونیورسل پریکاشن (عالمی احتیاط) کے اصول کے مطابق جب مریضوں کے خون کا نمونہ لیتے ہیں تو ہم یہ مان کر چلتے ہیں کہ سب کو ہی کورونا ہے اور اسی طرح کی احتیاط کرتے ہیں جیسی بتائی گئی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ٹیسٹ کے بعد نتیجہ منفی نکلے۔‘
یہ بڑھ رہا ہے، اس کے متعلق زیادہ پتا نہیں لیکن پھر بھی ہمیں چاہیے کہ خوف میں مبتلا نہ ہوں۔ اگرچہ ابھی اس کی کوئی ویکسین نہیں آئی لیکن اعداد و شمار یہ بھی بتاتے ہیں کہ اس سے ہلاک ہونے والے اکیس اعشاریہ نو فیصد افراد کی عمر اسی سال سے زیادہ ہے جبکہ نو سال سے کم عمر ایک بچے کی بھی موت کی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔

’سو اس سے زیادہ خطرہ ان کو ہے جو پہلے سے کسی بیماری میں مبتلا ہیں یا ان کی عمر زیادہ ہے۔‘

کورونا اور فلو میں مماثلت
فلو اور کورونا سے ہونے والی بیماریاں دونوں ہی سانس کی بیماریاں ہیں۔ اگرچہ یہ دونوں بظاہر ایک ہی طرح کی دکھائی دیتی ہیں لیکن دونوں بیماریاں مختلف قسم کے وائرس سے لگتی ہیں۔

دونوں ہی میں بخار چڑھتا ہے، کھانسی آتی ہے، جسم درد کرتا ہے، تھکاوٹ کا احساس رہتا ہے اور کبھی کبھار متلی یا اسہال (دست) ہوتا ہے۔

یہ دونوں کچھ عرصے کے لیے بھی ہو سکتی ہیں اور ایک لمبے عرصے کے لیے بھی۔ کئی کیسز میں بیمار افراد کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔
 دونوں بیماریوں سے نمونیہ بھی ہو سکتا ہے جو کہ کئی کیسز میں خطرناک ہو سکتا ہے۔

دونوں ہی ایک شخص سے دوسرے شخص کو ہوا میں قطروں کے ذریعے لگتے ہیں یعنی ایک متاثرہ شخص سے یہ دوسرے شخص کو اس کی کھانسی، چھینک یا بہت قریب سے باتیں کرتے ہوئے بھی لگ سکتے ہیں۔
ڈاکٹر حفیظ کہتے ہیں کہ یہ مماثلت سب سے زیادہ ذہن میں رکھنے والی ہے اور اس سے زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔

'کورونا کے مریض سے سب سے زیادہ خطرہ اس کے گھر والوں کو ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ وائرس آنکھ، ناک اور منہ سے جسم میں داخل ہو جاتا ہے اس لیے سب سے زیادہ احتیاط مریض کے قریب رہنے والوں کو کرنی چاہیے۔

'یہ کمرے کے دروازے کے ہینڈل سے بھی لگ سکتا ہے اور وہی برتن استعمال کرنے یا پکڑنے سے بھی جو مریض استعمال کر رہا ہے۔ اس سے احتیاط کی کنجی صرف یہ ہے کہ مریض کے بہت قریب نہ جائیں لیکن ایسا نہیں کہ اسے بالکل چھوڑ ہی دیں۔ بس احتیاط کریں۔'

کورونا اور فلو میں فرق
ابھی تک سامنے آنے والی تحقیق کے مطابق کورونا وائرس کی وجہ صرف ایک ہی وائرس ہے جبکہ فلو کی مختلف قسمیں اور وائرس ہیں۔
اگرچہ یہ دونوں وائرس ہوا میں قطروں اور چھونے سے لگتے ہیں لیکن ابھی تک سامنے آنے والی تحقیق سے یہ بھی پتا چلا ہے کہ کورونا وائرس ایک شخص سے دوسرے کو اس وقت بھی لگ سکتا ہے جبکہ وہ وہاں موجود نہ ہو۔

یعنی کہ متاثرہ شخص کے جراثیم ہوا میں موجود قطروں میں زندہ رہتے ہیں اور جب وہ وہاں سے چلا بھی جاتا ہے تو وہ وہاں موجود یا آنے والے کسی دوسرے شخص کو لگ سکتے ہیں۔

فلو میں اکثر گلے میں درد بھی ہوتا ہے جبکہ کورونا وائرس کے مریض کو زیادہ سانس چڑھتا ہے۔

اس بات کو بھی مدِ نظر رکھنا چاہیے کہ فلو کے متعلق سائنسدان کئی دہائیوں سے تحقیق کر رہے ہیں۔ اگرچہ اس سے اب بھی دنیا بھر میں بہت سی اموات ہوتی ہیں پر ہم اس کے متعلق بہت کچھ جانتے ہیں لیکن کورونا وائرس کے متعلق ایسا نہیں ہے۔

یہ نیا ہے، ہم اس کے متعلق زیادہ نہیں جانتے، اس سے نمٹنے کے لیے ہماری پاس ابھی مناسب ادویات نہیں اور اسی لیے یہ زیادہ خطرناک ہے۔