Tuesday, March 31, 2020

کورونا: سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے جھوٹے دعووں کی حقیقت جانیے

کورونا کی وبا کے ساتھ ہی جھوٹی خبروں، کہانیوں اور دعوؤں کا بازار بھی گرم ہے، چاہے وہ آپ کی انکل کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے کی جانے والی پوسٹ ہو یا آپ کی دوست کی جانب سے بھیجی گئی تصویر کی صورت میں ہو۔ کورونا وائرس سے جڑی ایسی من گھڑت کہانیاں آپ کو ہر طرف دکھائی دیں گی۔
بی بی سی کی ٹیم بڑے پیمانے پر پھیلنے والی والی ایسی جھوٹی اور غلط خبروں کی جانچ اور فیکٹ چیکنگ کر رہی ہے۔

بل گیٹس کا جعلی پیغام

مائیکرو سافٹ کمپنی کے سربراہ اور ارب پتی بل گیٹس سے منسوب ایک پیغام کو جسں میں لوگوں سے کورونا وائرس کے وبا کے دوران اپنی زندگیوں میں مثبت رہنے کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے مختلف ممالک میں ہزاروں مرتبہ شیئر کیا جا چکا ہے۔
حتیٰ کہ اس پیغام کو بہت سے افراد کے اصلی اکاؤنٹس، قومی اخباروں کی ویب سائٹس اور سپر ماڈل نومی کیمبل کے انسٹاگرام اکاؤنٹ سے بھی شیئر کیا جا چکا ہے۔
لیکن ہم جانتے ہیں کہ بل گیٹس کا اس بیان سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔

تاہم ایک سوشل میڈیا صارف نے بی بی سی سے رابطہ کیا اور دعوی ٰ کیا کہ انھوں نے یہ پیغام شائع کیا تھا۔ محمد علی نامی سوشل میڈیا صارف کا کہنا تھا کہ انھوں نے اس پیغام کو 16 مارچ کو فیس بک پر شائع کیا تھا لیکن انھوں نے اس پیغام کو بل گیٹس سے منسوب نہیں کیا تھا۔
ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ وہ اس پیغام کو شائع کرنے والے پہلے شخص تھے لیکن ہمیں فیس بک اکاونٹس پر اس سے پہلے یہ پیغام دکھائی نہیں دیا۔ لیکن یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ یہ پیغام بل گیٹس کے پیغام کے طور پر کب اور کیسے تبدیل ہوا۔

سوشل میڈیا پر پوسٹ اور دیگر معلومات کا تجزیہ کرنے والے سافٹ ویئر کراؤڈ ٹینگل کے مطابق اس پیغام کو کم از کم 22 مارچ کو بل گیٹس سے منسوب کرنے کے شواہد ملتے ہیں۔

خوراک عطیہ کرنے کی ویڈیو اصلی لیکن کہانی غلط

کورونا وائرس کی وبا کے دوران مستحق افراد کے لیے خوراک عطیہ کرنے کے حوالے سے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں راشن کے تھیلوں کو ضرورت مندوں کے لیے سڑکوں پر رکھا دکھایا گیا ہے۔ اس ویڈیو کو گذشتہ چند دنوں میں ایک کروڑ سے زیادہ مرتبہ دیکھا گیا ہے۔

چند سوشل میڈیا پوسٹس میں کہا گیا ہے کہ یہ ترکی کی ویڈیو ہے جبکہ چند دیگر میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ عراق یا انڈیا ہے۔ تاہم زیادہ تر افراد نے غریبوں کی اس طرح مدد کرنے پر ملک کی تعریف کی ہے۔
یہ ویڈیو اصلی ہے لیکن یہ دو ماہ پرانی ویڈیو ہے اس لیے سوشل میڈیا پوسٹس گمراہ کن ہیں۔ یہ عطیات کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے افراد کے لیے نہیں بلکہ زلزلے سے متاثر ہونے والے افراد کے لیے تھے۔

قصہ مختر بی بی سی کے ویریفیکشن ماہرین نے کامیابی کے ساتھ اس ویڈیو میں نظر آنے والی ایک دکان اور ایک اشتہار جس پر ترک زبان میں 'بہت سستا' لکھا ہوا تھا کی مدد سے اس جگہ کا پتہ لگا لیا جہاں یہ ویڈیو بنائی گئی تھی۔

یہاں سے اس ویڈیو کی تاریخ کو جاننے میں مدد ملی، 25 جنوری کو ترکی کے شہر کونیا میں اس تقریب کو فیس بک پر براہ راست سٹریم کیا گیا تھا۔
اس لائیو سٹریم اور ویڈیو میں نظر آنے والے درخت، وین، اور اشتہار سب کچھ اس ویڈیو میں دیکھی جانے والی انھیں چیزوں سے مماثلت رکھتے تھے۔

اس تقریب کا انعقاد کرنے والے خیراتی ادارے نے تصدیق کی کہ یہ ویڈیو کورونا متاثرین کے حوالے سے نہیں تھی۔

جھوٹے ٹیکسٹ پیغامات
سوشل میڈیا پر اکثر ایسے جھوٹے پیغامات کی تصاویر گھوم رہی ہیں جنھیں برطانوی حکومت سے منسوب کیا گیا ہے اور جن میں گھروں سے نکلنے پر جرمانے عائد کرنے پر خبردار کیا گیا ہے۔

ان پیغامات میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ حکومت لوگوں کی نگرانی کر رہی ہے اور جو اپنے گھروں سے نکل رہے ہیں انھیں جرمانے کیے جا رہے ہیں۔

گریٹر مانچسٹر پولیس سے منسوب کیے گئے ایک ایسے ہی جھوٹے پیغام میں کہا گیا تھا کہ ' آپ کو بنا کسی وجہ کے اپنے گھر سے نکلنے پر 3550 پاؤنڈ جرمانہ کیا گیا ہے۔'
برطانوی حکومت نے اس ہفتے چند پیغامات بھیجے ہیں لیکن ان میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے مروجہ نئے قواعد بتائے گئے ہیں۔

تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ 'ان کے علاوہ برطانوی حکومت سے منسوب دیگر تمام پیغامات غلط ہیں۔'

یہ واضح نہیں ہے کہ یہ پیغامات ہیکرز یا جعل سازوں نے بھیجے ہیں یا خود ساختہ طور پر ان سکرین شاٹس کو تیار کیا گیا ہے۔

ہیلی کاپٹروں سے جراثیم کش سپرے نہیں کیا جا رہا
اسی طرح ایک اور افواہ جو دنیا بھر کے ممالک تک جا پہنچی ہے۔ عالمی سطح پر وٹس ایپ سمیت دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ایک پیغام مختلف صورتوں میں گردش کر رہا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 'لوگ کمروں میں رہیں رات ساڑھے گیارہ بجے ہیلی کاپٹروں کے ذریعے کورونا وائرس کو ختم کرنے کے لیے جراثیم کش سپرے کیا جائے گا۔‘ لیکن اس کے کوئی شواہد نہیں ملے کے ایسا ہوا یا ہونے جا رہا ہے۔

حال ہی میں یہ پیغام لندن کے ایک ہسپتال میں ایک وارڈ کے ڈاکٹروں اور نرسوں کو بھیجا گیا تھا۔
بی بی سی مانیٹرنگ کے مطابق ایسی ہی افواہیں کہ ہیلی کاپٹر جراثیم کش سپرے کر رہے ہیں دیگر ممالک کے ساتھ ساتھ کینیا، اٹلی، روس اور نیپال میں بھی گردش کرتے رہے۔

واٹس ایپ پر بہت کچھ ہو رہا ہے لہذا یہ جاننا مشکل ہوگا کہ یہ پیغامات کون پھیلا رہا ہے۔

شاید یہ سننے کو عجیب لگے لیکن لوگ اب بھی اس کو شیئر کر رہے ہیں اور اس پر یقین کر رہے ہیں کیونکہ ان کے پاس اکثر یہ پیغام وہ ایسے لوگ یا دوست احباب بھیج رہے ہیں جن پر وہ یقین کرتے ہیں۔

اٹلی پولیس قومی لاک ڈاؤن نافذ نہیں کر رہی ہے

ایک ویڈیو منظر عام پر آئی ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اٹلی کی پولیس ایک شخص کو ملک میں نافذ سخت لاک ڈاؤن اقدامات کی خلاف ورزی کرنے پر گرفتار کر رہی ہے۔ اور جو ویڈیو انڈیا میں ٹوئٹر پر پوسٹ کی گئی ہے اس کو ساڑھے سات لاکھ سے زیادہ افراد دیکھ چکے ہیں۔
حالانکہ یہ ویڈیو برازیل میں بنائی گئی جس میں ساؤ پاؤلو میں ایک شخص کو گرفتار کیا گیا ہے اور اس کا کورونا وائرس کی وبا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

یہ ویڈیو گلوبو اخبار کی ویب سائٹ پر شائع کی گئی تھی جس میں اس شخص کی گرفتاری کا ذکر کیا گیا تھا۔

سپین کی ہسپتال کی تصویر اور آڈیو پیغام
عربی زبان میں ایک آڈیو پیغام بھی واٹس ایپ پر ایک تصویر کے ساتھ گردش کر رہا ہے جس میں مقبوضہ بیت المقدس میں ایک مشہور ہسپتال کی حالت زار پر تنقید کی جا رہی ہے اور تصویر میں مریضوں کو فرش پر لیٹے دکھایا گیا ہے۔
عربی زبان کی متعدد نیوز ویب سائٹس نے اپنے مضامین میں اس تصویر کو استعمال کیا ہے کہ دیکھیں کیسے اسرائیلی ہسپتال کورونا وائرس سے وبا سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

تاہم ہسپتال نے ان خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ تصویر میں دکھایا جانے والا ہسپتال وہ نہیں ہے جو بتایا جا رہا ہے۔

بی بی سی ٹرینڈنگ کی ٹیم نے بغور اس تصویر کا جائزہ لیا اور اس کے اصل مقام میڈرڈ کو تلاش کر لیا۔ اطلاعات کے مطابق یہ مریض کورونا وائرس سے متاثر ہیں اور پہلی مرتبہ اس تصویر کو ایک ہسپانوی ٹوئٹر اکاؤنٹ سے پوسٹ کیا گیا تھا۔

تصویر میں دکھائے گئے ہسپتال کے بیڈز پر بچھی چادروں اور تکیوں پر آویزاں لوگو میڈرڈ کے ہسپتالوں میں بچھے بستروں سے مماثلت رکھتے ہیں۔

Sunday, March 29, 2020

Covid-19: The history of pandemics

Throughout history, nothing has killed more human beings than infectious disease. Covid-19 shows how vulnerable we remain – and how we can avoid similar pandemics in the future.

T

The novel coronavirus pandemic, known as Covid-19, could not have been more predictable. From my own reporting, I knew this first-hand. In October 2019, I attended a simulation involving a fictional pandemic, caused by a novel coronavirus, that killed 65 million people, and in the spring of 2017 I wrote a feature story for TIME magazine on the subject. The magazine cover read: “Warning: the world is not ready for another pandemic”.

There was little special about my insight. Over the past 15 years, there has been no shortage of articles and white papers issuing dire warnings that a global pandemic involving a new respiratory disease was only a matter of time. On BBC Future in 2018, we reported that experts believed a flu pandemic was only a matter of time and that there could be millions of undiscovered viruses in the world, with one expert telling us, “I think the chances that the next pandemic will be caused by a novel virus are quite good.” In 2019, US President Donald Trump’s Department of Health and Human Services carried out a pandemic exercise named “Crimson Contagion”, which imagined a flu pandemic starting in China and spreading around the world. The simulation predicted that 586,000 people would die in the US alone. If the most pessimistic estimates about Covid-19 come true, the far better named “Crimson Contagion” will seem like a day in the park.

As of 26 March, there were more than 470,000 confirmed cases of Covid-19 around the world and more than 20,000 deaths, touching every continent save Antarctica. This was a pandemic, in reality, well before the World Health Organization finally declared it one on 11 March. And we should have seen it coming.

Covid-19 marks the return of a very old – and familiar – enemy. Throughout history, nothing has killed more human beings than the viruses, bacteria and parasites that cause disease. Not natural disasters like earthquakes or volcanoes. Not war – not even close.

Mass killers

Take the mosquito-borne disease malaria. It has stalked humanity for thousands of years, and while death tolls have dropped significantly over the past 20 years, it still snuffs out nearly half a million people every year.

Over the millennia, epidemics, in particular, have been mass killers on a scale we can’t begin to imagine today – even in the time of the coronavirus.

The plague of Justinian struck in the 6th Century and killed as many as 50 million people, perhaps half the global population at the time. The Black Death of the 14th Century – likely caused by the same pathogen – may have killed up to 200 million people. Smallpox may have killed as many as 300 million people in the 20th Century alone, even though an effective vaccine – the world’s first – had been available since 1796.

Some 50 to 100 million people died in the 1918 influenza pandemic – numbers that surpass the death toll of World War One, which was being fought at the same time. The 1918 flu virus infected one in every three people on the planet. (Read more about how the 1918 flu changed the world). HIV, a pandemic that is still with us and still lacks a vaccine, has killed an estimated 32 million people and infected 75 million, with more added every day.

If these numbers shock, it’s because today epidemics are rarely discussed in history classes, while in the not so distant past, they were simply a terrible fact of life. There are few memorials to the victims of disease. The historian Alfred Crosby was the author of America’s Forgotten Pandemic, one of the great books on the 1918 flu. But Crosby was only prompted to begin researching the pandemic when he stumbled on the forgotten fact that American life expectancy had suddenly dropped from 51 years in 1917 to 39 years in 1918, before rebounding the following year. That plummet in 1918 was because of a virus just 120 nanometers wide. 

Viral advantage

Pathogens make such effective mass killers because they are self-replicating. This sets them apart from other major threats to humanity. Each bullet that kills in a war must be fired and must find its target. Most natural disasters are constrained by area: an earthquake that strikes in China can’t directly hurt you in the UK.

But when a virus – like the novel coronavirus – infects a host, that host becomes a cellular factory to manufacture more viruses. Bacteria, meanwhile, are capable of replicating on their own in the right environment.

The symptoms created by an infectious pathogen – such as sneezing, coughing or bleeding – put it in a position to spread to the next host, and the next, a contagiousness captured in the replication number, or “R0” of a pathogen, or how many susceptible people one sick person can infect. (Imperial College London has estimated the novel coronavirus’s R0 at 1.5 to 3.5.) And because human beings move around – interacting with other human beings as they do so in every manner from a handshake to sexual intercourse – they move the microbes with them. (Read more about what makes viruses so difficult to outsmart).

No wonder militaries have long tried to harness disease as a tool of war. No wonder that, until recently, far more soldiers died of disease than died in combat. A pathogen is a perfectly economical weapon, turning its victims into its delivery system.

The constant threat of disease, as much as any other factor, kept the reins on human development and expansion. At the dawn of the 19th Century, global life expectancy was just 29 years – not because human beings couldn’t live to much older ages even then, but because so many of us died in infancy from disease, or from infection during childbirth or after a wound. (Read more about whether our life spans are really longer than that of our ancestors).

The cities of the pre-modern era were only able to keep up their populations through a continual infusion of migrants to make up for citizens who died off from disease. The development first of sanitation, and then of countermeasures like vaccines and antibiotics, changed all that.

“The defeat of infection overcame these barriers and allowed us to have these great global cities,” says Charles Kenny, a senior fellow at the Center for Global Development, a think tank in Washington DC, and the author of the forthcoming book Winning the War on Death: Humanity, Infection and the Fight for the Modern World.

It was a victory that won us the modern world as we know it.

A better era

It can be difficult to comprehend how quickly that war was seemingly won. My great-grandparents could have fallen victim to the 1918 flu. My grandparents lived their infancy and youth before penicillin was developed. My parents were born before the polio vaccine was invented in 1954. Yet by 1962, the Nobel Prize-winning virologist Sir Frank Macfarlane Burnet could note that “to write about infectious disease is almost to write of something that has passed into history”.

In the developed world, we are now far more likely to die from non-communicable diseases like cancer, heart disease or Alzheimer’s than from a contagion
In the developed world, and increasingly in the developing world, we are now far more likely to die from non-communicable diseases like cancer, heart disease or Alzheimer’s than from a contagion. The decline of infectious disease is the best evidence that life on this planet truly is getting better.

While reporting my book End Times, I visited the epidemiologist Marc Lipsitch at his office at the Harvard T.H. Chan School of Public Health in Boston one rainy morning in the spring of 2018. Lipsitch is one of the most influential epidemiologists in the United States, and one who takes seriously the possibility that disease pandemics might constitute a true global catastrophic risk – which is why I was there to see him.

But that morning Lipsitch showed me something I wasn’t expecting: a chart that graphed infectious disease mortality in the United States over the course of the 20th Century.

What it shows is a drastic decline, from around 800 deaths from infectious disease per 100,000 people in 1900 to about 60 deaths per 100,000 by the last years of the century. There was a brief spike in 1918 – that would be the flu – and a slight and temporary upturn during the worst of the AIDS epidemic in the 1980s. But, Lipsitch told me, “death rates from infectious disease dropped by nearly 1% a year, about 0.8 % per year, all the way through the century.”

Not over yet

That’s the good news. The bad news, as Covid-19 reminds us, is that infectious diseases haven’t vanished. In fact, there are more new ones now than ever: the number of new infectious diseases like Sars, HIV and Covid-19 has increased by nearly fourfold over the past century. Since 1980 alone, the number of outbreaks per year has more than tripled.

The number of new infectious diseases like Sars, HIV and Covid-19 has increased by nearly fourfold over the past century
There are several reasons for this uptick. For one, over the past 50 years, we’ve more than doubled the number of people on the planet. This means more human beings to get infected and in turn to infect others, especially in densely populated cities. We also have more livestock now than we did over the last 10,000 years of domestication up to 1960 combined, and viruses can leap from those animals to us.
As Covid-19 is painfully demonstrating, our interconnected global economy both helps spread new infectious diseases – and, with its long supply chains, is uniquely vulnerable to the disruption that they can cause. The ability to get to nearly any spot in the world in 20 hours or fewer, and pack a virus along with our carry-on luggage, allows new diseases to emerge and to grow when they might have died out in the past.

For all the advances we’ve made against infectious disease, our very growth has made us more vulnerable, not less, to microbes that evolve 40 million times faster than humans do.

Antibiotics have saved hundreds of millions of lives since the serendipitous discovery of penicillin in 1928, but bacterial resistance to these drugs is growing by the year, a development doctors believe is one of the greatest threats to global public health. In fact, 33,000 people die each year from antibiotic resistant infections in Europe alone, according to a 2018 study. The “antibiotic apocalypse”, as England’s former chief medical officer, Sally Davies, called it, puts us in danger of returning to a time when even run-of-the-mill infections could kill.

Back in 2013, a World Bank estimate of how much the 1918 flu could cost our now much richer and more connected global economy put the figure at more than $4 trillion, nearly the entire GDP of Japan. Early estimates of the economic damage from Covid-19 have already crossed the trillion-dollar mark.
The World Health Organization, which performed so well under the stress of Sars, has botched more recent outbreaks so badly that experts have called for the entire organisation to be overhauled. Climate change is expanding the range of disease-carrying animals and insects like the Aedes aegyptimosquitoes that transmit the Zika virus.

Even human psychology is at fault. The spread of vaccine scepticism has been accompanied by the resurrection of long-conquered diseases like measles, leading the WHO in 2019 to name the antivaccination movement one of the world’s top 10 public-health threats.
Covid-19 is very much a disease of the moment, emerging in a crowded city in a newly prosperous and connected China before spreading to the rest of the world in a matter of months. But our response to it has been both hyper-modern – and practically medieval. Scientists around the world are using cutting-edge tools to rapidly sequence the genome of the coronavirus, pass along information about its virulence, and collaborate on possible countermeasures and vaccines, all far quicker than could have been done before.

But when the virus arrived among us, our only effective response was to shut down society and turn off the assembly line of global capitalism. Minus the text alerts, the videoconferencing and the Netflix, what we were doing wasn’t that different from what our ancestors might have tried to halt an outbreak of the plague. The result has been chemotherapy for the global economy.

Just as the eventual emergence of something like Covid-19 was easily predictable, so too are the actions we should have taken to shore ourselves against its coming.

We need to strengthen the antennae of global health, to ensure that when the next virus emerges — which it will — we’ll catch it faster, perhaps even snuff it out. The budget of the WHO, the agency ostensibly charged with safeguarding the health of the world’s 7.8 billion citizens, is somehow no more than that of a large urban hospital in the U.S.

We need to double down on the development of vaccines, which will include assuring large pharma companies that their investments won’t be wasted should an outbreak end before one is ready.

We need to build more slack into our public health systems. Just as the US military is designed — and funded — to fight a war on two fronts, so our health care systems should have the surge capacity to meet the next pandemic.

One ongoing challenge in pandemic preparation is what experts call shock and forgetting. Too often politicians make funding promises in the immediate aftermath of a crisis like Sars or Ebola, only to let those pledges lapse as the memory of the outbreak fades.

Somehow, I expect that won’t be the case with Covid-19. We need to do all we can to not just survive this pandemic, but to ensure it remains a throwback from the past, not a sign of things to come.

Source BBC Future

Saturday, March 28, 2020

بیلاروس: یورپ کا واحد ملک جو کورونا وائرس سے پریشان نہیں ہے

یورپ اب کورونا وائرس کی عالمی وبا کا مرکز بن چکا ہے لیکن اسی براعظم پر ایک ایسا ملک بھی ہے جہاں حکام عوام کو اپنے روز مرہ کی زندگی کے معمولات کو تبدیل نہ کرنے کی ہدایات دے رہے ہیں۔

بیلاروس کئی اعتبار سے ایک انوکھا ملک ہے۔ یہ یورپ کے دیگر ملکوں اور اپنے قریب ترین ہمسایہ ممالک، یوکرین اور روس، سے بہت مختلف رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔

یوکرین ہنگامی حالت نافذ کرنے والا ہے جبکہ روس میں سکول بند کر دیے گئے ہیں، بڑے اجتماعات پر پابندی ہے اور ملک میں آنے اور جانے والی تمام پروازوں کو معطل کر دیا گیا ہے۔ دوسری جانب بیلاروس میں کئی لحاظ سے زندگی معمول کے مطابق چل رہی ہے۔

بیلا روس کی سرحدیں کھلی ہیں، لوگ اپنے کاموں پر جا رہے ہیں اور سراسیمگی کے عالم میں کوئی ٹوائلٹ پیپر خرید کر ذخیرہ نہیں کر رہا۔

خوف زدہ نہ ہوں
بیلاروس کے صدر الیگزیندر لوکاشنکو کہتے ہیں کہ ملک کو کورونا وائرس کی وبا کو پھیلنے سے روکنے کے لیے کوئی احتیاطی اقدامات اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے۔

ملک کے دارالحکومت منسک میں چین کے سفیر کے ساتھ ایک ملاقات میں انھوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ دہشت زدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہا ہے کہ ’واقعات ہوتے رہتے ہیں۔‘
بیلا روس نے سنیما ہال اور تھیٹر بند نہیں کیے ہیں اور اجتماعات پر پابندی بھی نہیں لگائی ہے۔ دنیا بھر میں یہ واحد ملک بچا ہے جس نے اپنے فٹبال مقابلے منسوخ نہیں کیے ہیں۔

بیلا روس کی پریمیئر شپ کے میچ معمول کے مطابق کھیلے جا رہے ہیں اور یہ مقابلے ہمسایہ ملک روس میں فٹ بال دیکھنے کو ترسے ہوئے شائقین کے لیے براہ راست ٹی وی پر نشر بھی ہو رہے ہیں۔

’ٹریکٹر کورونا کا علاج کرے گا‘
صدر لوکاشنکو کا یہ بیان کہ ’ٹریکٹر کورونا کا علاج کرے گا‘ عوامی بحث کا موضوع بنا ہوا ہے اور اس کا سوشل میڈیا پر خوب چرچا ہے۔

صدر لوکاشنکو کا اشارہ کھیتوں میں دیانتداری سے پوری محنت کرنے کی طرف تھا۔ صدر خود تو شراب نہیں پیتے لیکن ان کا کہنا تھا کہ کورونا کی وبا کو پھیلنے سے روکنے کی کوشش میں واڈکا رہ جائے گی۔

لیکن بیلاروس کے بہت سے عام شہری شدید تشویش کا شکار ہیں کیوں کے انھیں علم ہے کہ باقی دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔

منسک میں بہت سے نوجوان اور سکول کے بچے بیماری کا بہانا بنا کر چھٹیاں کر رہے ہیں۔

عوام میں پائی جانے والی تشویش کے پیش نظر کئی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں کلاسوں کے اوقات بدل دیے گئے ہیں تاکہ طالب علموں کو دن کے مصروف اوقات میں پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر نہ کرنا پڑے۔

منسک کی سڑکوں اور گلیوں میں کم لوگ نظر آ رہے ہیں اور لوگوں کو اس بات کا احساس ہے کہ عمر رسیدہ افراد کو اس وبا سے زیادہ خطرہ ہے۔ لیکن لوگوں کو اس وبا کے بارے میں جو کچھ معلوم ہوا ہے اس میں حکام کا بہت کم ہاتھ ہے۔

صدر لوکاشنکو کہتے ہیں کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے کیونکہ بیرونی ممالک سے آنے والے تمام مسافروں کا معائنہ کیا جا رہا ہے۔

ان کا دعوی ہے کہ ایک دن میں صرف دو سے تین مسافروں کو کورونا کا شکار پایا جاتا ہے اور انھیں فوراً قرنطینہ میں ڈال دیا جاتا ہے جہاں سے وہ ڈیڑھ سے دو ہفتوں بعد جا سکتے ہیں۔
لوکاشنکو کا اصرار ہے کہ پریشانی اور ذہنی دباؤ بہت خطرناک ہوتے ہیں اور یہ وائرس سے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔ انھوں نے ملک کی خفیہ ایجنسی ’بیلاروس کے جی بی‘ کے اہلکاروں کو ہدایت کی ہے وہ افواہیں اور خوف و ہراس پھیلانے والے شرپسندوں پر نظر رکھیں۔

اب تک بیلاروس میں کورونا وائرس کے 86 مریض سامنے آئے ہیں اور کورونا وائرس میں مبتلا دو مریضوں کی موت ہو چکی ہے۔ اس بات کی سرکاری طور پر تصدیق ہو چکی ہے کہ یقیناً یہ مریض کورونا وائرس ہی کا شکار ہوئے ہیں۔

بیلاروس کئی لحاظ سے ایک انوکھا ملک ہے۔ یہ یورپ کا واحد ملک ہے جہاں اب تک موت کی سزا کا قانون موجود ہے۔ یہ یورپ کا واحد ملک ہے جہاں حکام کو کورونا وائرس کی وبا کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔

غیر معمولی طور پر بیلاروس کی حزب اختلاف کے ایک سرگرم کارکن اندرے کِم جو عام طور پر حکام کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہیں انھوں نے صدر کے موقف سے اتفاق کیا ہے۔

کم نے اپنے فیس بک صفحے پر لکھا کہ لوکاشنکو بالکل ٹھیک کر رہے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ملکی سطح پر قرنطینہ نافذ کرنے سے بیلاروس کی معیشت تباہ ہو جائے گی۔ انھوں نے مزید کہا کہ دنیا میں سب کچھ درہم برہم ہو گیا ہے لیکن بیلاروس دنیا کا واحد ملک ہے جہاں حکومت عوام میں مقبول اقدامات کے بجائے ان کے لیے خیر کی تمنا کرتی ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ انھیں علم ہے کہ ایسا کہنے پر انھیں زندہ نگل لیا جائے گا لیکن وہ اس عام پاگل پن کی صورت حال میں خاموش نہیں رہ سکتے۔

’پاگل پن‘ سے ان کی مراد وہ سخت اقدامات ہیں جو باقی دنیا میں کورونا وائرس کی وبا کو پھیلنے سے روکنے کے لیے اٹھائے جا رہے ہیں اور ان کے خیال میں بیلاروس ایسا کچھ نہ کر کے عقلمندی کا ثبوت دے رہا ہے۔

Thursday, March 26, 2020

کورونا وائرس: کووڈ-19 سے متعلق چند بنیادی سوالات اور ان کے جواب

دنیا میں جیسے جیسے کووِڈ-19 نامی کورونا وائرس سے متاثرہ ممالک کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے عام آدمی کے ذہن میں اس بیماری کے بارے میں نت نئے سوالات جنم لے رہے ہیں۔

مارچ کی 26 تاریخ تک دنیا بھر میں کورونا وائرس سے اب تک چار لاکھ 72 ہزار سے زائد افراد متاثر ہو چکے ہیں جبکہ اس سے اب تک 21 ہزار 300 سے زائد ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔

جیسا کہ یہ وائرس کھانسی کے ذریعہ انسان سے انسان میں منتقل ہوتا ہے لہذا یہ ضروری ہے کہ الکوحل سے بنے ہینڈ سینیٹائزر یا گرم پانی اور صابن سے بار بار ہاتھ دھوئیں اور چہرے کو بار بار چھونے سے اجتناب کریں۔

اس کے علاوہ، آپ کو کسی بھی ایسے شخص سے رابطے سے گریز کرنا چاہیے جسے کھانسی، زکام یا بخار کے شکایت ہو۔ جو بھی شخص یہ سمجھتا ہے کہ وہ کورونا وائرس سے 
متاثر ہے اسے فوراً اپنے معالج سے رابطہ کرنا چاہیے

 اس وبا کے متعلق قارئین کے مختلف بنیادی سوالات کے جواب دینے کی کوشش کی ہے۔
ایک ہفتہ قبل میری سونگھنے اور ذائقے کی حس ختم ہوگئی، کیا یہ کورونا وائرس کی علامت ہے؟
برطانیہ میں ناک، کان اور گلے کے سپیشلسٹ ڈاکٹروں کے نوٹس میں آیا ہے کہ سونگھنے کی حس کے ختم ہونے یعنی اینوسمیا کی شکایات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

اور زیادہ سے زیادہ تعداد میں لوگ سوشل میڈیا پر سونگھنے اور ذائقے کی حس سے محرومی کی شکایت کی رہے ہیں اور کچھ کے کورونا وائرس کے ٹیسٹ مثبت آئے ہیں۔ مگر اب تک اس حوالے سے ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہیں اور عمومی نزلہ زکام کی وجہ سے بھی سونگھنے یا ذائقے کی حس یا دونوں عارضی طور پر ختم ہوجاتی ہیں۔

میں خطرے کی زد میں موجود شخص ہوں اور میری نگہداشت کے لیے نرس کو آنے کی ضرورت ہے، کیا وہ میرے گھر آ سکتے ہیں؟
اگر آپ کو انتہائی ضروری نگہداشت فراہم کی جا رہی ہے تو یہ ایسی صورتحال میں جاری رہ سکتی ہے جب اس شخص میں کورونا وائرس کی علامات نہ ہوں۔

آپ کے گھر آنے والے کسی بھی شخص کو آپ کے گھر میں داخل ہونے اور آپ کے گھر سے جانے سے پہلے اور اس دوران بار بار 20 سیکنڈ تک اپنے ہاتھ صابن اور پانی سے دھونے چاہییں۔ اس کے علاوہ انھیں آپ سے دو میٹر یعنی 6 فٹ کا فاصلہ برقرار رکھنا چاہیے۔

یہ بھی اہم ہے کہ ایسے متبادل افراد موجود ہوں جو آپ کے نرس کے بیمار پڑنے پر آپ کی نگہداشت کر سکیں۔
اگر کسی میں کووِڈ-19 کی علامات پیدا ہوجائیں تو گھر میں موجود کسی حاملہ خاتون کو خود ساختہ تنہائی سے متعلق کیا اقدام کرنا چاہیے؟
اگر آپ کے گھر میں کسی کے اندر کورونا وائرس کی علامات پیدا ہوجائیں تو برطانوی حکومت کی ہدایت ہے کہ خطرے کی زد میں موجود لوگ یعنی حاملہ خواتین یا 70 سال سے زائد عمر کے افراد ہوسکے تو 14 دن کے لیے خود کو تنہا کر لیں۔

اگر یہ ممکن نہ ہو تو علامات کے حامل شخص سے جتنا دور ہو سکے اتنا دور رہیں۔ ابھی تک اس حوالے سے کوئی ثبوت نہیں ہیں کہ کیا کورونا وائرس کی وجہ سے حاملہ خواتین اور ان کے بچے زیادہ خطرے کے شکار ہیں، لیکن حکام نے زور دیا ہے کہ انھیں اس حوالے سے زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔

کیا کورونا وائرس پالتو کتوں اور بلیوں کے بالوں پر زندہ رہ سکتا ہے اور وہاں سے دوسرے لوگوں کو لگ سکتا ہے؟
کورونا وائرس کا خطرہ نہ بھی ہو تب بھی آپ کو پالتو جانوروں پر ہاتھ پھیرنے یا انھیں سنبھالنے کے بعد اپنے ہاتھ اچھی طرح دھونے چاہییں۔ اور جہاں یہ مانا جا رہا ہے کہ کووِڈ 19 ابتدائی طور پر انسانوں میں جانوروں کے ذریعے آیا تھا، یہ اب بھی واضح نہیں ہے کہ ایسا کیسے ہوا، اور اب تک ایسی کوئی مثال نہیں جس میں انسانوں کو یہ اپنے پالتو جانوروں کے ذریعے لگا ہو۔

جانوروں کی صحت کی عالمی تنظیم (او آئی ای) کا کہنا ہے کہ بظاہر پالتو جانور وائرس پھیلانے کا سبب نہیں ہیں، مگر اس حوالے سے مزید ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں کہ کیا جانوروں پر یہ اثرانداز ہوتا ہے یا نہیں، اور اگر ہوتا ہے تو کس طرح۔

او آئی ای کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ لوگ جو کووِڈ-19 کے شکار ہیں یا اس بیماری کی وجہ سے زیرِ علاج ہیں، انھیں پالتو جانوروں کے قریب جانے سے گریز کرنا چاہیے اور کسی دوسرے شخص سے کہنا چاہیے کہ وہ انھیں سنبھال لے۔ اور اگر انھیں یہ خود ہی کرنا ہو تو صفائی کا خیال رکھنا چاہیے اور چہرے پر ماسک پہننا چاہیے
کورونا وائرس کی نگہداشت کا دورانیہ کتنا ہے؟
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی علامات ظاہر ہونے میں عموماً پانچ دن لگ جاتے ہیںلیکن کچھ لوگوں میں یہ علامات بہت دیر میں بھی ظاہر ہوئیں۔

عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ وائرس کی نگہداشت کا دورانیہ 14 دن تک کا ہے لیکن بعض محققین کا کہنا ہے کہ یہ 24 دن تک بھی ہوسکتا ہے۔۔

نگہداشت کے دورانیے کے بارے میں علم ہونا اور اسے سمجھنا بہت اہم ہے۔ اس کی مدد سے ڈاکٹرز اور صحت کے حکام کو اس وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے طریقے تلاش کرنے میں مدد ملی ہے۔

کیا کورونا وائرس سے صحت یاب ہونے کا مطلب ہے کہ اس سے بچ گئے؟
یہ کہنا قبل از وقت ہو گا۔ اس وائرس سے انسانوں کا واسطہ ابھی گذشتہ دسمبر سے پڑا ہے لیکن ماضی میں دوسرے وائرسز اور کورونا وائرس کی اقسام کے ساتھ ہونے والے تجربات کی بنیاد پر دیکھا جائے تو آپ کے اندر آپ ایسی اینٹی باڈیز ہونی چاہیئں جو آپ کو اس وائرس سے پچا سکیں۔

سارس اور دوسرے کورونا وائرس میں دوبارے انفیکشن دیکھنے میں نہیں آیا۔ چین سے ملنے والی رپورٹس کے مطابق ہسپتال سے خارج کیے جانے والے افراد میں دوبارہ مثبت ٹیسٹ آئے ہیں لیکن ہم ان ٹیسٹس کے بارے مںی بھی پر یقین نہیں۔

تاہم اہم بات یہ ہے کہ یہ لوگ اب انفیکشن پھیلنے کا سبب نہیں رہے۔
کورونا اور فلو میں کیا فرق ہے؟
کورونا اور فلو کی کئی علامات ایک جیسی ہیں جس کی وجہ سے بغیر ٹیسٹ کے اس کی تشخیص مشکل ہے۔ کورونا وائرس کی بڑی علامات میں بخار اور خشک کھانسی شامل ہیں۔

فلو میں بھی اکثر بخار اور کھانسی ہوتی ہے جبکہ لوگوں کو سانس لینے میں بھی دشواری ہوتی ہے۔

سیلف آئسولیشن کا کیا مطلب ہے؟
سیلف آئسولیشن کا مطلب 14 دن کے لیے گھر پر رہنا ہے اس دوران نہ تو یہ شخص سکول یا کام پر جاتا ہے نہ ہی کسی عوام مقام پر اور اس دوران وہ عوامی ٹرانسپورٹ کے استعمال سے بھی گریز کرتا ہے۔

سیلف آئسولیشن کے دوران ایسا کرنے والا شخص اپنے گھر میں بھی دوسرے افراد سے دور رہتا ہے۔

اگر آپ سیلف آئسولیشن میں ہیں اور اگر آپ کو سودا خریدنے کی ضرورت ہے تو آن لائن سروس استعمال کریں۔

اس دوران آپ کو اپنے پالتو جانوروں سے بھی دور رہنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو ان کے پاس جانے سے پہلے اور بعد ہاتھ ضرور دھوئیں۔
مجھے کیا کرنا چاہیے اگر میرے ساتھ رہنے والا سیلف آئسولیشن اختیار کر لے؟

برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروسز کا کہنا ہے ایسے افراد جو خود ساختہ طور پر اپنے آپ کو الگ تھلگ رکھ رہے ہیں ایسے میں صرف ان لوگوں کو ان ساتھ رہنے کی اجازت دی جانی چاہیے جو پہلے سے ان کے ساتھ رہتے ہیں۔

اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جس شخص کو شک ہے کہ اسے کورونا وائرس ہے اسے گھر میں موجود دوسروں سے کم سے کم رابطہ رکھنا چاہئے۔ اگر ممکن ہو تو ، انھیں ایک ہی کمرے میں نہیں رہنا چاہئے۔

کسی بھی مشترکہ کراکری اور کھانے کے برتنوں کو استعمال کے بعد اچھی طرح صاف کرنا چاہئے، اور باتھ روم اور مشترکہ استعمال کی سطحوں کو بھی اچھی طرح صاف کرنا چاہیے۔

کیا کسی پبلک سوئمنگ پول میں تیرنا محفوظ ہے؟

بیشتر پبلک سوئمنگ پولز کے پانی میں کلورین ہوتا ہے، ایک ایسا کیمیکل جو وائرس کو مار سکتا ہے۔ لہذا جب تک اس میں مناسب طریقے اور مقدار کی کلورین شامل ہے سوئمنگ پول کو استعمال کرنا محفوظ ہونا چاہئے۔

البتہ آپ پھر بھی کسی متاثرہ شخص سے وائرس پکڑ سکتے ہیں اگر وہ سطحوں کو آلودہ کرتے ہیں ، جیسے کپڑے تبدیل کرنے کی جگہ یا عمارت کے دروازوں کے ہینڈلز وغیرہ۔ اور اگر کوئی وائرس سے متاثرہ شخص وہاں موجود ہوں تو وہ قریبی رابطے میں آنے کے صورت میں کھانسی اور چھینک کے ذریعہ بھی وائرس دوسروں میں منتقل کر سکتا ہے۔

کورونا وائرس سے بچنے اور اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے بہت سارے دیگر طریقے موجود ہیں۔

کیا صحت مند معذور افراد میں کورونا وائرس سے مرنے کا خطرہ زیادہ ہے؟

کورونا وائرس سے زیادہ متاثر ہونے کا خطرہ بزرگ افراد یا پہلے سے بیمار افراد میں زیادہ ہوتا ہے۔ ان بیماریوں میں دل کے امراض، ذیابیطس اور پھیھڑوں کی بیماریاں شامل ہیں۔

اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ معذور افراد جو دوسری صورت میں صحت مند ہیں اور جو مثال کے طور پر سانس کی تکلیف میں مبتلا نہیں ہے ان میں کورونا وائرس سے ہلاکت کا خطرہ زیادہ ہے
کورونا وائرس سے بچوں کو کتنا خطرہ ہے؟
چین کے اعداد و شمار کے مطابق عام طور پر بچوں کو کورونا وائرس نے نسبتاً بہت کم متاثر کیا ہے۔

اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہ انفیکشن کا خاتمہ کرنے کے قابل ہیں یا ان میں کوئی علامات نہیں ہیں یا صرف بہت ہی ہلکی سی علامات ظاہر ہوئی ہے جیسا کہ زکام۔

تاہم ، دمہ جیسی بنیادی پھیپھڑوں کی بیماری میں مبتلا بچوں کو زیادہ محتاط رہنا پڑتا ہے کیونکہ وائرس ان پر حملہ آور ہوسکتا ہے۔

اگرچہ زیادہ تر بچوں کے لیے یہ کسی سانس کے دیگر انفیکشن کی طرح ہوگا اور خطرے کی کوئی وجہ بات نہیں ہو گی۔

دمہ کے مریضوں کے لیے یہ وائرس کتنا خطرناک ہے؟
سانس کی بیماری کا شکار کرنے والے کورونا وائرس جیسے وائرس سے دمہ کی علامات بڑھ سکتی ہیں۔

دمہ کی بیماری کے حوالے سے برطانوی ادارے ’ایزتھما یو کے‘ ایسے افراد کو جو اس وائرس سے تشویش میں مبتلا ہیں اپنے دمے کی بیماری پر قابو پانے کے لیے چند ہدایات پر عمل کرنے کا مشورہ دیتا ہے۔ ان ہدایات میں ڈاکٹر کا تجویز کردہ انہیلر کا روزانہ استعمال شامل ہے۔

اس سے کورونا وائرس سمیت کسی بھی سانس کے وائرس سے دمہ کے حملے کے خطرے کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔

اگر آپ کے دمے کی علامات کسی بھی وقت بگڑ جائیں تو فوراً اپنے معالج سے رابطہ کریں۔
اگر آپ کے کسی دفتری ساتھی کو کورونا وائرس کی وجہ سے قرنطینہ میں رکھا گیا ہے تو کیا آپ کو بھی قرنطینہ میں رہنا چاہیے؟
اس ضمن میں متعدد اداروں نے کورونا وائرس کے خلاف احتیاطی تدابیر اپناتے ہوئے عملے کو گھر سے کام کرنے کو کہا ہے۔ یہ فیصلہ ان کمپینوں کے چند ملازمین کی متاثرہ ممالک سے واپسی کے بعد ان میں کورونا وائرس کی علامات ظاہر ہونے کے بعد کیا گیا ہے۔

لیکن برطانوی ادارے پبلک ہیلتھ انگلینڈ (پی ایچ ای) کا کہنا ہے کہ عملے کو کام سے گھر بھیجنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ زیادہ تر مشتبہ کیسز کے نتائج منفی نکلتے ہیں۔ برطانوی ادارہ برائے صحت دفتروں کو بند کرنے کی سفارش نہیں کرتا ہے یہاں تک کہ اگر کورونا وائرس کا کوئی تصدیق شدہ کیس بھی ہو۔

برطانوی حکام صرف ان افراد کو خود ساختہ قرنطینہ کا مشورہ دیتے ہیں:

جو کورونا وائرس کے ٹیسٹ کے نتائج کا انتظار کر رہے ہیں
جن کا تصدیق شدہ متاثرہ افراد کے ساتھ قریبی رابطہ رہا ہو
جنھوں نے حال ہی میں متاثرہ ممالک کا دورہ کیا ہو
کیا ایسے افراد جن کو پہلے ہی نمونیا ہو چکا ہے وہ کورونا وائرس سے متاثر ہو سکتے ہیں؟
یہ نیا کورونا وائرس بہت کم تعداد میں افراد کو نمونیا میں مبتلا کر سکتا ہے۔ صرف ان افراد میں اس کا خطرہ موجود ہے جن کے پھیپھڑے پہلے ہی سے کمزور یا خراب ہوں۔ مگر کیونکہ یہ کورونا وائرس کی ایک نئی قسم ہے اور کوئی بھی اس سے محفوظ نہیں ہے اس لیے یہ نیا وائرس کسی بھی طرح کی پھیپھڑوں کی بیماری یا نمونیا کا سبب بن سکتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے خلاف ویکسین دستیاب ہونے میں ابھی 18 ماہ کا وقت لگ سکتا ہے۔

حاملہ خواتین اگر کورونا وائرس سے متاثر ہو جائیں تو ان کو کیا خطرہ ہو سکتا ہے؟
سائنسدانوں کے پاس ایسی کوئی وجہ نہیں ہے کہ وہ یہ کہہ سکیں کہ حاملہ خواتین کو اس وائرس سے متاثر ہونے کا زیادہ خطرہ ہے۔

اپنے آپ کو وائرس سے بچانے کے لیے حفظان صحت کے آسان مشوروں پر عمل کرنا ضروری ہے۔ ان میں اکثر اپنے ہاتھوں کو صابن اور پانی سے اچھی طرح دھونا، اپنے چہرے، آنکھوں یا منہ کو گندے ہاتھوں سے نہ چھونا اور بیمار لوگوں سے دور رہنا شامل ہے۔

اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کورونا وائرس سے متاثر ہو گئے ہیں، یا کسی ایسے شخص کے ساتھ رابطے میں رہے ہیں جسے اس وائرس نے متاثر کیا یا کسی ایسے متاثرہ ملک کا سفر کیا ہو تو آپ کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ آپ اپنے گھر میں رہیں اور ڈاکٹر سے رابطہ کریں۔

کیا کورونا وائرس فلو سے زیادہ نقصان دہ ہے؟
ابھی ان دونوں بیماری کا براہ راست موازنہ کرنا قبل از وقت ہے لیکن ہم یہ جانتے ہیں کہ دونوں وائرس انتہائی خطرناک ہیں۔

اوسطاً کورونا وائرس سے متاثرہ شخص دو سے تین دیگر افراد کو انفیکشن منتقل کرتے ہیں جبکہ فلو سے متاثرہ افراد اسے قریباً ایک دوسرے شخص تک پہنچاتے ہیں۔

تاہم، فلو سے متاثرہ افراد دوسروں کے لیے زیادہ تیزی سے متعدی ہو جاتے ہیں لہذا دونوں وائرس آسانی سے پھیل سکتے ہیں
کیا یہ وائرس جنگلی حیات کے ذریعہ پھیل سکتا ہے؟
اس بات کا پتہ لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے مہلک کورونا وائرس جانوروں سے انسانوں میں کیسے منتقل ہوا اور یہ تقریباً یقینی ہے کہ چین میں کورونا وائرس کی ابتدائی وباء کسی جانور کے ذریعہ ہی شروع ہوئی تھی۔ اس نئے انفیکشن کے ابتدائی واقعات کا سراغ جنوبی چین کی سی فوڈ ہول سیل مارکیٹ سے ملتا ہے، جہاں زندہ جنگلی جانور بھی فروخت ہوئے جن میں مرغی، چمگادڑ اور سانپ شامل ہیں۔

البتہ کوئی جانور اس وائرس کو انسانی میں منتقل کرنے کا ذریعہ نہیں ہو سکتا ہے۔

چین سے باہر رہنے والے افراد کے لیے کسی جانور سے وائرس سے متاثر ہونے کے امکانات بہت کم ہیں۔ ہم اس وقت اس وبا کے مختلف مرحلوں پر ہیں جہاں یہ انسان سے انسان میں پھیل رہا ہے اور یہ ہی اصل خطرہ ہے۔
کیا کورونا وائرس کھڑکی اور دروازے کے ہینڈل کو ہاتھ لگانے سے بھی پھیل سکتا ہے ؟
اگر کوئی متاثرہ شخص کھانسی کرتے ہوئے اپنے ہاتھ منھ پر رکھتا ہے اور پھر کسی چیز کو ہاتھ لگاتا ہے تو وہ سطح پر متاثر ہو جاتی ہے۔ دروازے کے ہینڈل اس کی اچھی مثال ہیں جہاں اس وائرس کے ہونے کا امکان ہو سکتے ہیں۔

تاہم اس بات کا ابھی تک علم نہیں ہے کہ یہ نیا کورونا وائرس اس طرح کی سطحوں پر کتنی دیر تک زندہ رہ سکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی عمر دنوں کی بجائے گھنٹوں میں ہے لیکن یہ بہتر ہے کہ آپ باقاعدگی سے ہاتھ دھوئیں تاکہ وائرس سے متاثر ہونے اور پھیلنے کا امکان کم ہو۔

کیا موسم اور درجہ حرارت کورونا وائرس کے پھیلاؤ پر اثر ڈالتا ہے؟
ہمیں ابھی اس وائرس کے متعلق بہت کچھ جاننا باقی ہے۔ یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ موسمی یا درجہ حرارت میں تبدیلی اس کے پھیلاؤ پر کوئی اثرات مرتب کریں گے یا نہیں۔

چند دیگر وائرس جیسا کے فلو موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ اپنے اثرات مرتب کرتا ہے جیسا کہ موسم سرما میں یہ بڑھ جاتا ہے۔

مارس اور اس طرح کے دیگر وائرس کے متعلق چند تحقیق یہ ظاہر کرتی ہیں کہ یہ آب و ہوا کے حالات سے متاثر ہوتے ہیں جو گرم مہینوں میں قدرے زیادہ تیزی سے پھیلتے ہیں۔

کیا آپ متاثرہ شخص کے تیارکردہ کھانے سے اس وائرس سے متاثر ہو سکتے ہیں؟
کوئی کورونا وائرس سے متاثرہ شخص کھانا تیار کردہ ہے اور اس دوران حفظان صحت اور صفائی کا خیال نہیں رکھتا تو ممکنہ طور پر اس سے کوئی اور شخص متاثر ہو سکتا ہے۔ کورونا وائرس کھانسی کے دوران منھ پر ہاتھ رکھنے سے پھیل سکتا ہے اور اگر ایسے میں متاثرہ شخص نے ہاتھ اچھی طرح دھو کر کھانا تیار نہیں کیا تو اس کے امکان بڑھ جاتے ہیں۔ لہذا کھانےکو چھونے اور کھانے سے قبل اچھی طرح ہاتھ دھوئیں تاکہ اس کے جراثیم کو پھیلنے سے روکا جا سکے۔

اگر آپ ایک مرتبہ کورونا وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں تو کیا اس وائرس کے خلاف آپ کی مدافعت بڑھ جاتی ہیں؟
جب لوگ کسی انفیکشن یا بیماری سے صحت یاب ہوجاتے ہیں تو ان کے جسم میں اس بیماری سے دوبارہ لڑنے کی کچھ یادداشت رہ جاتی ہے۔ تاہم یہ مدافعاتی عمل ہمیشہ دیرپا یا مکمل طور پر موثر نہیں ہوتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں کمی بھی آسکتی ہے۔ یہ معلوم نہیں ہے کہ انفیکشن کے بعد یہ مدافعت کب تک چل سکتی ہے۔

کیا چہرے کا ماسک وائرس کے خلاف کارآمد ہے اور اسے کتنی مدت بعد تبدیل کرناچاہیے؟
اس بارے میں بہت کم شواہد موجود ہیں کہ چہرے کے ماسک پہننے سے فرق پڑتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اپنے منھ کے قریب ہاتھ لے جانے سے قبل یہ زیادہ موثر ہے اچھی حفظان صحت کے تحت آپ باقاعدگی سے اپنے ہاتھ د
ھوئیں۔
کیا کورونا وائرس جنسی طور پر منتقل ہو سکتا ہے؟
یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ آیا یہ بھی وائرس منتقلی کا ایک ذریعہ ہے یا نہیں جس کے بارے میں ہمیں فکر مند ہونا چاہئے۔ فی الحال، اس وائرس کے پھیلنے کا سب سے بڑا ذریعہ کھانسی اور چھینکوں کو سمجھا جاتا ہے۔

کیا کورونا وائرس سے متاثرہ شخص مکمل صحت یاب ہوا ہے؟
جی ہاں. بہت سے ایسے افراد جو کوروناوائرس سے متاثر ہوئے اور ان میں بیماری کے معمولی علامات ظاہر ہوئی ان میں سے زیادہ تر افراد کی مکمل صحت یابی کی توقع کی جاتی ہے۔

تاہم، بزرگ افراد جنھیں پہلے سے ذیابیطس، کینسر یا کمزور مدافعتی نظام جیسی بیماریاں لاحق ہیں ان کے لیے یہ ایک خاص خطرہ بن سکتا ہے۔

چین کے نیشنل ہیلتھ کمیشن کے ایک ماہر کا کہنا ہے کورونا وائرس کے معمولی علامات سے ٹھیک ہونے میں ایک ہفتہ لگ سکتا ہے۔

کیا کورونا وائرس ووہان سے خریدی گئی اور دیگر ممالک میں بذریعہ ڈاک بھیجی گئیں اشیا کے ذریعہ منتقل ہو سکتا ہے؟
اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ اس کا کوئی خطرہ ہے۔ کورونا وائرس سمیت کچھ بیماریاں ان سطحوں سے پھیل سکتی ہیں جہاں ان کے متاثرہ افراد کے کھانسی یا چھینکنے کے بعد چھوا ہو، لیکن یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ وائرس زیادہ دن زندہ نہیں رہتا ہے۔ کچھ بھی جو بذریعہ ڈاک بھیجا گیا ہے اس کے منزل مقصود تک پہنچنے تک اس سے آلودہ ہونے کا امکان نہیں ہے۔

کیا سانس کی اس بیماری سے بچنے کے لیے ویکسینیشن کروانا ممکن ہے؟
اس وقت اس وائرس سے بچاؤ کی کوئی ویکسین موجود نہیں ہے جو لوگوں کو اس قسم کے کورونا وائرس سے بچا سکے لیکن محققین اس کی تیاری میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ ایک نئی بیماری ہے جو انسانوں میں پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی تھی۔ جس کا مطلب ہے کہ ڈاکٹروں کے پاس اس کے بارے میں جاننے کے لیے ابھی بھی بہت کچھ ہے۔

Tuesday, March 24, 2020

Coronavirus: Separating the facts from myths and misconceptions

COVID-19 is not an airborne disease, garlic is not a remedy and you don't need a mask

It’s almost three months since the new coronavirus broke out in Wuhan city of Hubei province in China. A cure or a vaccine is not in sight. The staggering speed of infections has forced some countries into lockdown, while some have declared national emergencies.
Even today, not much is known of the virus. While the worry is understandable, the trepidation have given rise to some myths and misconceptions.
Here’s a compilation of facts the World Health Organisation, and advisories from several countries and agencies.

What are the symptoms?

The virus infection can cause mild, flu-like symptoms such as: fever, cough, breathing difficulty, muscle pain, and fatigue or tiredness. In extreme cases, patients develop severe pneumonia, acute respiratory distress syndrome, sepsis and septic shock that can lead to death.

How does it spread?

The virus seems to be transmitted mainly through respiratory droplets that people sneeze, cough, or exhale. The virus can also survive for several hours on surfaces such as tables and door handles.

Evidence suggests that an infected person with no symptoms can pass on the disease. But more proof is required to confirm this.

On average, one infected person will infect between two and three more. The incubation period (time between exposure to the virus and onset of symptoms) is estimated at between two and 14 days.

How serious is the disease?

According to data released by the Chinese authorities, 80 per cent of cases are mild. In around 14 per cent of cases the virus causes severe disease, including pneumonia, and shortness of breath. In about five per cent of patients it is critical, leading to respiratory failure, septic shock and multiple organ failure.

How is COVID-19 diagnosed?

Infection is diagnosed by finding evidence of the virus in respiratory samples such as swabs from the back of the nose and throat or fluid from the lungs.

Who is at risk?

Elderly people and those with underlying health conditions (hypertension, diabetes, cardiovascular disease, chronic respiratory disease and cancer) are considered to be more at risk of developing severe symptoms.

Are children at risk?

Disease in children appears to be relatively rare and mild. In China only around 2 per cent of cases were under 18 years of age, according to a study. Less than 3 per cent of them became critically ill.

What about pregnant women?

Pregnant women’s risk of illness is the same as non-pregnant ones. And a COVID-19 infection will not have any effect on the foetus. There is also no evidence of virus transmission from mother to baby.

Is there a treatment?

Currently, there is no specific treatment for this disease. Patients are provided symptomatic treatment: fluids to reduce dehydration, medication to reduce a fever, and supplemental oxygen in severe cases. Health care providers try to keep the patients healthy and expect antibodies developed by the body to fight the virus. So patients recover on their own.

Can antibiotics help?

No, antibiotics do not work against viruses. It works only against bacteria.

Is there a vaccine?

No. At present, there’s no vaccine against COVID-19.

Vaccines against pneumonia and other flu vaccines do not provide protection against the new coronavirus. The virus is so different that it needs its own vaccine.

But vaccination against respiratory illnesses is highly recommended to protect your health.

What should I do if I have visited an infected area?

People who have been to hot spots of infections or travellers returning should monitor their health for 14 days. Self-quarantine is advised.

How long is the infection period?

It will vary from person to person. Mild symptoms in a healthy individual may resolve in a few days. For individuals with other health issues, recovery may take weeks and in severe cases it could be potentially fatal.

How long does the virus survive on surfaces?

It is not certain how long the virus survives on surfaces. Studies suggest that coronaviruses may persist on surfaces for a few hours or up to several days. This may vary under different conditions, depending on type of surface, temperature or humidity of the environment.

Can I catch the virus from a passer-by? Is it an airborne disease?

No. You can’t catch the new coronavirus through the air. The COVID-19 is not an airborne disease. The virus can remain suspended in the air for hours, but it cannot infect others under normal conditions.

The virus is typically transmitted through respiratory droplets. The coronavirus is physically larger and heavier than other known respiratory viruses. It can only travel about one to two metres before falling to the ground.

Lab tests have shown that aerosolised coronavirus particles (a fine mist or spray) can remain in the air for hours under certain conditions. But there’s no proof that it could infect others.

Should I wear as a mask?

Wearing lightweight disposable surgical masks is not recommended for persons without respiratory illness. Since they don’t fit tightly, tiny infected droplets may get into the nose, mouth or eyes.

People with a respiratory illness can wear these masks to lessen their chance of infecting others.

Professional, tight-fitting respirators (N95) can protect health care workers as they care for patients.

Home isolation: How do I do it?

You should stay in a separate room if you are sharing your home with others. Keep away from other people as much as possible. Wear a surgical mask when you are in the same room as another person. Use a separate bathroom, if it’s available.

Avoid contact with people who are at risk of severe disease, such as elderly people and those who have heart, lung or kidney conditions, and diabetes.

Keep out visitors.

What do I do after 14 days isolation?

If you do not have any symptoms at the end of 14 days self-isolation, you can resume your normal lifestyle.

Can eating garlic help prevent infection?

There is no evidence that eating garlic has protected people from the new coronavirus.

Can cold weather kill the virus?

Cold weather cannot kill the new coronavirus or other diseases since the normal human body temperature remains around 36.5°C to 37°C, irrespective of the external temperature.

Can mosquitoes spread the virus?

The new coronavirus cannot be transmitted through mosquito bites. It is a respiratory virus which spreads primarily through droplets generated when an infected person coughs or sneezes, or through droplets of saliva.

Are hand dryers effective in killing the new coronavirus?

No. Hand dryers are not effective in killing the virus. To protect yourself, clean your hands frequently with an alcohol-based hand rub or wash them with soap and water.

Can spraying alcohol or chlorine on the body kill the virus?

No. Spraying alcohol or chlorine all over your body will not kill viruses that have already entered your body. Spraying such substances can be harmful to clothes or mucous membranes (i.e. eyes, mouth).

Can an ultraviolet disinfection lamp kill the coronavirus?

UV lamps should not be used to sterilise hands or other areas of skin as UV radiation can cause skin irritation.

Can thermal scanners detect infected people?

Thermal scanners can only detect people who have developed a fever due to the virus infection. But they cannot detect infected people who are yet to develop fever. It takes 2 to 10 days for infected people to develop a fever.

Will bleach, ascetic acid/vinegar or steroids help?

Gargling with bleach, taking acetic acid or steroids, or using essential oils, salt water, ethanol or other substances will not protect you from getting COVID-19. Some of them may even be dangerous.

Will a hot bath prevent COVID-19?

Taking a hot bath will not prevent you from catching COVID-19. Your normal body temperature remains around 36.5°C to 37°C, regardless of the temperature of your bath or shower.

How can I protect myself?

Wash your hands often with soap and water for at least 20 seconds, especially after blowing your nose, coughing, or sneezing; going to the bathroom; and before eating or preparing food.

Avoid touching your eyes, nose, and mouth with unwashed hands.

Stay home when you are sick.

Cover your cough or sneeze with a tissue, then throw the tissue in the trash.

Avoid close contact with anyone who is coughing and sneezing.

What is the risk of infection from food products imported from affected areas?

There has been no reports of transmission of COVID-19 through food.

Do pets and other animals pose a risk?

There is no evidence that pets (dogs and cats) pose a risk of infection. But it is always safe to practise hygiene when in contact with animals.

How long will this outbreak last?

It is impossible to predict how long the outbreak will continue, since it is a new virus. It is also not known whether the infection spread will decrease during summer, as is the case with seasonal flu.

Sources:
Gulf News wolrd
BBC future

Will warm weather really kill off Covid-19?

Some people hope that outbreaks of the new coronavirus will wane as temperatures rise, but pandemics often don’t behave in the same way as seasonal outbreaks.

Many infectious diseases wax and wane with the seasons. Flu typically arrives with the colder winter months, as does the norovirus vomiting bug. Others, such as typhoid, tend to peak during the summer. Measles cases drop during the summer in temperate climates, while in tropical regions they peak in the dry season.

Perhaps unsurprisingly, many people are now asking whether we can expect similar seasonality with Covid-19. Since it first emerged in China around mid-December, the virus has spread quickly, with the number of cases now rising most sharply in Europe and the US.

Many of the largest outbreaks have been in regions where the weather is cooler, leading to speculation that the disease might begin to tail off with the arrival of summer. Many experts, however, have already cautioned against banking too much on the virus dying down over the summer.

And they are right to be cautious. The virus that causes Covid-19 – which has been officially named SARS-CoV-2 – is too new to have any firm data on how cases will change with the seasons. The closely related Sars virus that spread in 2003 was contained quickly, meaning there is little information about how it was affected by the seasons.

But there are some clues from other coronaviruses that infect humans as to whether Covid-19 might eventually become seasonal.

A study conducted 10 years ago by Kate Templeton, from the Centre for Infectious Diseases at the University of Edinburgh, UK, found that three coronaviruses – all obtained from patients with respiratory tract infections at hospitals and GP surgeries in Edinburgh – showed “marked winter seasonality”. These viruses seemed to cause infections mainly between December and April – a similar pattern to that seen with influenza. A fourth coronavirus, which was mainly found in patients with reduced immune systems, was far more sporadic.

There are some early hints that Covid-19 may also vary with the seasons. The spread of outbreaks of the new disease around the world seems to suggest it has a preference for cool and dry conditions.

An unpublished analysis comparing the weather in 500 locations around the world where there have been Covid-19 cases seems to suggest a link between the spread of the virus and temperature, wind speed and relative humidity. Another unpublished study has also shown higher temperatures are linked to lower incidence of Covid-19, but notes that temperature alone cannot account for the global variation in incidence.

Further as-yet-unpublished research predicts that temperate warm and cold climates are the most vulnerable to the current Covid-19 outbreak, followed by arid regions. Tropical parts of the world are likely to be least affected, the researchers say.

But without real data over a number of seasons, researchers are relying upon computer modelling to predict what might happen over the course of the year.

Extrapolating data about Covid-19’s seasonality based on endemic coronaviruses – meaning viruses which have been circulating in human populations for some time – is challenging. That's not least because endemic viruses are seasonal for a number of reasons that might not currently apply to the Covid-19 pandemic.

Pandemics often don’t follow the same seasonal patterns seen in more normal outbreaks. Spanish flu, for example, peaked during the summer months, while most flu outbreaks occur during the winter.

“Eventually we would expect to see Covid-19 becoming endemic,” says Jan Albert, a professor of infectious disease control who specialises in viruses at the Karolinska Institute in Stockholm. “And it would be really surprising if it didn't show seasonality then. The big question is whether the sensitivity of this virus to [the seasons] will influence its capacity to spread in a pandemic situation. We don’t know for sure, but it should be in the back of our heads that it is possible.”

We need to be cautious, therefore, when using what we know about the seasonal behaviour of other coronaviruses to make predictions about the current Covid-19 pandemic. But why are related coronaviruses seasonal, and why does that offer hope for this outbreak?

Coronaviruses are a family of so-called “enveloped viruses”. This means they are coated in an oily coat, known as a lipid bilayer, studded with proteins that stick out like spikes of a crown, helping to give them their name – corona is Latin for crown. 

Research on other enveloped viruses suggests that this oily coat makes the viruses more susceptible to heat than those that do not have one. In colder conditions, the oily coat hardens into a rubber-like state, much like fat from cooked meat will harden as it cools, to protect the virus for longer when it is outside the body. Most enveloped viruses tend to show strong seasonality as a result of this.

Research has already shown that Sars-Cov-2 can survive for up to 72 hours on hard surfaces like plastic and stainless steel at temperatures of between 21-23C (70-73F) and in relative humidity of 40%. Exactly how the Covid-19 virus behaves at other temperatures and humidity has still to be tested, but research on other coronaviruses suggests they can survive for more than 28 days at 4C.


A closely related coronavirus that caused the Sars outbreak in 2003 has also been found to survive best in cooler, drier conditions. For example, dried Sars virus on smooth surfaces remained infectious for over five days at between 22-25C and with a relative humidity of 40–50%. The higher the temperature and humidity, the shorter the virus survived.

“Climate comes into play because it affects the stability of the virus outside the human body when expelled by coughing or sneezing, for example,” says Miguel Araújo, who studies the effects of environmental change on biodiversity at the National Museum of Natural Sciences in Madrid, Spain. “The greater the time the virus remains stable in the environment, the greater its capacity to infect other people and become epidemic. While Sars-Cov-2 has quickly spread all over the world, the major outbreaks have mainly occurred in places exposed to cool and dry weather.”


His computer models certainly seem to match the pattern of outbreaks around the world, with the highest number of cases outside of the tropics.

Araújo believes that if Covid-19 shares a similar sensitivity to temperature and humidity, it could mean cases of coronavirus will flare up at different times around the world.

“It is reasonable to expect the two viruses will share similar behaviour,” he says. “But this is not a one-variable equation. The virus spreads from human to human. The more humans at any given place and the more they get into contact with each other, the more infections there will be. Their behaviour is key to understanding the propagation of the virus.”

A study from the University of Maryland has shown that the virus has spread most in cities and regions of the world where average temperatures have been around 5-11C (41-52F) and relative humidity has been low.

But there have been considerable numbers of cases in tropical regions, too. A recent analysis of the spread of the virus in Asia by researchers at Harvard Medical School suggests that this pandemic coronavirus will be less sensitive to the weather than many hope.

They conclude that the rapid growth of cases in cold and dry provinces of China, such as Jilin and Heilongjiang, alongside the rate of transmission in tropical locations, such as Guangxi and Singapore, suggest increases in temperature and humidity in the spring and summer will not lead to a decline in cases. They say it underlines the need for extensive public health interventions to control the disease.

This is because the spread of a virus depends on far more than simply its ability to survive in the environment. And this is where understanding the seasonality of diseases becomes complicated. For a disease like Covid-19, it is people who are now spreading the virus, and so seasonal changes in human behaviour can also lead to shifts in infection rates.

Measles cases in Europe, for example, tend to coincide with school terms and decrease during the holidays when children are not spreading the virus to one another. The enormous migration of people around the Chinese Lunar New Year on 25 January has also been suggested to have played a key role in the spread of Covid-19 out of Wuhan to other cities in China and around the world.

The weather can also mess with our own immune systems to make us more vulnerable to infections, too. There is some evidence to suggest the vitamin D levels in our bodies can have an affect on how vulnerable we are to infectious diseases. In the winter our bodies make less vitamin D from sunlight exposure, mainly because we spend more time indoors and wrap ourselves in clothing against the cold air. But some studies have found this theory is unlikely to account for seasonal variation seen in diseases like flu.

More controversial is whether cold weather weakens our immune systems – some studies suggest it does, but others find the cold can actually boost the number of cells that defend our bodies from infection.

There is stronger evidence, however, that humidity can have a greater impact on our vulnerability to disease. When the air is particularly dry, it is thought to reduce the amount of mucus coating our lungs and airways. This sticky secretion forms a natural defence against infections and with less of it, we are more vulnerable to viruses.

Stopping contact between people should also bring down the infection rates
One intriguing study by scientists in China suggests there is some sort of relationship between how deadly Covid-19 can be and the weather conditions. They looked at nearly 2,300 deaths in Wuhan, China, and compared them to the humidity, temperature and pollution levels on the day they occurred.

Although it has yet to be published in an academic journal, their research suggests mortality rates were lower on days when the humidity levels and temperatures were higher. Their analysis also suggests that on days where the maximum and minimum temperature ranges were greater, there were higher levels of mortality. But this work is largely also based on computer modelling, so the exact nature of this relationship, and whether it will be seen in other parts of the world, is still to be explored.

As the virus causing the Covid-19 pandemic is new, it is unlikely many people, if anyone, will have immunity against it until they have been infected and have recovered. This means the virus will spread, infect and cause disease in a way quite unlike endemic viruses.

Air travel has been the main route by which the virus has spread around the world so rapidly, says Vittoria Colizza, director of research at the French Institute of Health and Medical Research. But once it starts spreading within a community, it is close contact between people that drives the transmission. Stopping contact between people should also bring down the infection rates. This is exactly what many governments have been attempting to do with the escalating lockdown of public places around the world.